بدعنوانی: اِک سفر ہے اور سمت ِسفر کوئی نہیں!

تین حقائق: بد عنوانی کے حوالے سے عالمی درجہ بندی میں سال 2021ء سے 2020ء تک پاکستان کا ذکر اچھے الفاظ میں نہیں ہو رہا۔ سال 2021ء میں پاکستان کے 140 پوائنٹس تھے جو کم ہو کر سال 2020ء میں 31 پوائنٹس ہو گئے ہیں اور اُمید ہے کہ آئندہ چند روز میں اختتام پذیر ہونے والے سال 2022ء کے دوران پاکستان میں بدعنوانی کی شرح مزید کم ہو کر 28 رہ جائے گی۔ یہ نمایاں بہتری اپنی جگہ اہم لیکن ’بدعنوانی کی چھاپ‘ باقی ہے اور وہ سبھی محرکات (موافق ماحول) بھی قائم و دائم ہے اِس لئے اندیشہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام و دیگر محرکات کی وجہ سے بدعنوانی کی شرح میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ دوسری حقیقت انسداد بدعنوانی کے لئے نگرانی کے نظام کی کمزوری ہے جسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ تیسری حقیقت یہ سوال ہے جو اکثر پوچھا جاتا ہے کہ آخر اِنسداد بدعنوانی کیوں نہیں ہو رہی؟ کرنسی نوٹوں کی پشت پر تحریر سے لیکر عوامی مقامات پر اعلانات آویزاں کرنے‘ انسداد بدعنوانی کا قومی دن منانے اور بدعنوانی کی وجہ سے قومی تعمیروترقی کی ناپائیداری جیسے محرک سے آگاہ ہونے کے باوجود بھی انتظامی و مالی اختیارات کا غلط استعمال نہیں رک رہا جس کی وجہ سے پاکستان کی قومی ساکھ بھی متاثر ہے، اِس کا ”عملا سنجیدگی“ سے سدباب ہونا چاہئے۔ اِنسداد بدعنوانی میں ناکامی کی وجوہات میں سرفہرست وجہ یہ ہے کہ بدعنوانی کے قانون و قواعد میں موجود سقم (خامیاں) ہیں، آئین ِپاکستان میں اگرچہ بار بار ترامیم ہوتی ہیں لیکن انسداد بدعنوانی کے قانون میں موجود سقم دور کرنے کے لئے ترامیم کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔اس میں کوئی دور ائے نہیں کہ بدعنوانی سرفہرست قومی مسئلہ ہے لیکن پھر بھی اِسے قومی مسئلہ نہیں سمجھا جاتا۔ راتوں رات امیر بننے والے اشخاص‘ جن کی آمدنی کے ذرائع مشکوک ہوتے ہیں اور معلوم و نامعلوم ذرائع سے اُن کی آمدنی امانت و دیانت جیسی خصوصیات کی صریحاً (چیخ چیخ کر) نفی بھی کر رہی ہوتی ہے لیکن ایسے لوگوں کی سماجی سطح پر اُن افراد کے مقابلے نسبتاً زیادہ پذیرائی کی جاتی ہے‘ جن کی مالی حیثیت اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود زیادہ قابل ذکر (مثالی) نہیں ہوتی۔ نتیجہئ خیال یہ ہے کہ قومی وسائل کی لوٹ مار اور بدعنوانی کے لئے ذمہ دار کوئی ایسا طبقہ یا مکتبہئ فکر نہیں جو اِسے جائز سمجھتا ہے بلکہ قوم کا ہر فرد اِس جرم میں شریک ہے کیونکہ ’ہم عوام‘ بدعنوانوں سے نفرت و برأت کا اعلان نہیں کرتے بلکہ اُنہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ اس طرح جو نتیجہ سامنے آتا ہے اس کے مطابق بد عنوانی کے خاتمے کیلئے ہر سطح پر کوششیں کرکے ہی یہ کام ہو سکتا ہے۔ ہم میں سے ہر فرد بدعنوانی کو بھرا سمجھتا ہے تاہم بد عنوان افراد کے سوشل بائیکاٹ اور ان سے مراسم نہ رکھنے کے حوالے سے عملاً کچھ نہیں کرتا۔دوسری طرف جو لوگ بدعنوانی کرتے ہیں انہیں اپنے خاندانوں کے اندر سے اگر مزاحمت کا سامنا ہوا تو وہ کرپشن سے قبل کئی مرتبہ سوچیں گے۔تاہم اس محاذ پر بھی سرگرمی نہ ہونے کے برابر ہے۔بدعنوانی کے خاتمے کیلئے اگر منظم انداز میں معاشرتی سطح پر مہم چلائی جائے اور ایسے افراد کو بالکل تنہا کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بدعنوانی میں اضافے کی بجائے اس میں کمی واقع نہ ہو۔ بدعنوانی اور کرپشن کے خاتمے کے لئے حکومتی منصوبوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں تاہم یہ تمام کوششیں تب ہی نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے جب عوام اس میں شریک ہوں اور معاشرے کا ہر فرد بدعنوانی کو معاشرتی برائی کا درجہ دے کر اس کے مرتکب افراد کے ساتھ اسی مناسبت سے سلوک شروع کریں۔