منظر بہت ہی حیران کن مگر انتہائی حوصلہ افزاء تھا کیونکہ جب ہمارے ارد گر د صرف اورصرف تاریکیاں ہی تاریکیاں پھیل رہی ہوں ہرطرف بد بو کے بھبھکے اٹھ رہے ہوں مایوسیاں دلو ں میں گھر کرتی جارہی ہوں ایسے میں اس قسم کے مناظر سب کچھ بدل کررکھ دیتے ہیں روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ہرطرف خوشبوؤں کی مہک دل ودماغ کو معطر کرتی ہے اور پھر امید کی کونپلیں دل میں پھوٹنے لگتی ہیں تقریب ایک دینی مدرسے میں منعقد ہورہی تھی مگر یقین مانئے کہ دین ودنیا کاحسین ترین امتزاج دکھائی دے رہاتھا جو اصل روح اسلام بھی ہے تقریب میں شرکت کے لیے جمعرات آٹھ دسمبر کو ہی ہمیں مدعو کرلیاگیاتھا حالانکہ تقریب میں ابھی کم سے کم ایک ہفتہ باقی تھا محترم مفتی غلام الرحمن نے فون کرکے تاکید فرمائی کہ اگلی جمعرات کو ہر صورت شرکت یقینی بنانی ہے مفتی صاحب کی دعوت کو ہم ہمیشہ اپنے لیے باعث عزت سمجھتے ہیں اور ہمارے لیے یہ دعوت نہیں بلکہ ان کے حکم کادرجہ رکھتی ہے تقریب کی اہمیت کااندازہ ا س امر سے لگایاجاسکتاہے کہ اس موقع پر ملک کے کسی پہلے دینی مدرسہ کو یہ اعزاز حاصل ہورہاتھاکہ وہاں بی ایس انگلش پروگرام کاافتتاح ہورہاتھا مہمان خصوصی جامعہ پشاور کے وائس چانسلر ڈاکٹر ادریس تھے جبکہ باٹنی اورپشتو شعبہ جات کے سربراہان سمیت کئی اساتذہ کرام بھی شریک محفل تھے مفتی غلام الرحمن اور ان کے ادارے جامعہ عثمانیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہر معاملہ میں خوب سے خوب تر کی تلاش میں اپنے معیار کو اس قدر بلند رکھتے ہیں کہ پھر سب ہی تعریف پر مجبور ہوجاتے ہیں چند سال قبل بہت بڑا سنگ میل عبور کرتے ہوئے جامعہ عثمانیہ میں ایک ثقافتی نمائش کااہتمام کیا گیاتھا جس میں اگر ایک طرف اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سمیت بعض صوبائی وزراء نے شرکت کی تھی تو دوسری طرف جے یو آئی کے مرکز ی امیر مولانا فضل الرحمن نے بھی رونق بخشی تھی مولانا کے سامنے جامعہ کے طلبا نے دلچسپ خاکے بھی پیش کیے تھے ساتھ ہی سرکاری افسرا ن نے بھی بڑی تعداد میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی اور انتہائی حیران کن کوشش ملاحظہ کی تھی تاہم معاملہ یہاں رکا نہیں اس موقع پر جتنا سامان نمائش کے لیے لایاگیاتھا ان میں سے اکثر جامعہ کی نذر کردیاگیا اورپھر لوگوں کو مزید حیران کرنے کے لیے مفتی غلام الرحمن نے جامعہ میں مستقل بنیادوں پر عجائب گھر کے قیام کامشکل فیصلہ کیا اس مقصد کے لیے نہ صرف بہترین جگہ تیار کی گئی بلکہ صوبائی حکومت سے این او سی کے حصول کو بھی ممکن بنایاگیا اس کے بعد سے تو جیسے مفتی صاحب نے لوگوں کو حیران کرنے کی مہم ہی شروع کردی کیونکہ انہوں نے عثمانیہ ٹرسٹ کے تحت نوتھیہ میں مفت علاج معالجہ کے لیے ہسپتال کے قیام کے بیڑہ بھی اٹھالیا جبکہ ملک کاپہلا قرآنک گارڈن تو وہ پہلے ہی قائم کیے ہوئے ہیں پھر مزید پیشرفت کرتے ہوئے جامعہ عثمانیہ میں بی ایس پروگرام بھی شرو ع کردیا اورپی ایس انگلش پروگرام کا آغاز کرکے اپنے ادارے کو ممتاز رکھنے کی دوڑ میں پھر بہت آگے نکل گئے ان کو کئی سال قبل پشاور یونیورسٹی کے ایک وی سی نے بی ایس پروگرام شروع کرنے کی ترغیب دی تھی اور ساتھ ہی جامعہ پشاور کے ساتھ الحاق کی پیشکش بھی کی تھی مگر مفتی صاحب نے اس وقت یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ اتنا بڑا قدم اٹھانے کے لیے ابھی ہماری تیاری مکمل نہیں ہے اس مقصد کے لیے پھر وہ جت گئے اور پہلے مرحلہ میں بی ایس اسلامک سٹڈیز کے بعداب انگلش پروگرام شرو ع کردیاہے تاہم انہوں نے معیار بلندرکھنے کی خاطر کم سے کم نشستوں پر اکتفا کیا ہے جن میں پھروہ بتدریج اضافہ کریں گے چونکہ سیماب صفتی ان کاخاصہ رہاہے اس لیے انہوں نے ملک بھر میں ایک اور انفرادی سلسلہ بھی شروع کیاہواہے اوربی ایس پروگراموں کا آغاز اسی سلسلہ کاثمر قراردیاجاسکتاہے جامعہ عثمانیہ نے پہلی باریہ روایت شروع کی ہوئی ہے فارغ التحصیل فضلاء کرام کو سال میں ایک بارضرور مدعو کرتے ہیں ان کے سامنے یہ سوال رکھاجاتاہے کہ فراغت کے بعد جب سے انہوں نے عملی میدان میں قدم رکھاتو ان کو کیا کیا بڑی مشکلات پیش آئیں اس کے جواب میں بہت سے پہلو سامنے لائے جاتے ہیں جس پر غور کے لیے پر ایک بورڈ بیٹھتاہے اور ان مشکلات کاجائزہ لے کر ان کے حل کی راہ ڈھونڈی جاتی ہے یہی چیز ان کو آخرکار بی ایس کی طرف لے گئی گویا مفتی صاحب کی کوشش یہی ہے کہ اپنی طرف سے کوئی بھی قدم نہ اٹھایاجائے پہلے تحقیق کرتے ہیں جائزہ لیتے ہیں راہیں تلاش کرتے ہیں امکانات کی صورت دیکھتے ہیں اور اس کے بعد اللہ کانام لے کر میدان عمل میں کود پڑتے ہیں بی ایس انگلش پروگرام کے بعد اب اگلا مرحلہ آئی ٹی پروگرام شروع کرنے کابھی ہے جس کے لیے ابھی سے ہوم ورک شروع کیاجاچکاہے تقریب سے خطاب میں وی سی پشاور یونیورسٹی نے جامعہ عثمانیہ کے معیار اور مفتی غلام الرحمن کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں مستقبل میں بھی بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی ڈاکٹر ادریس نے جامعہ عثمانیہ کو دینی مدارس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں کے لیے بھی ایک مثال قراردیتے ہوئے کہاکہ ادارے کانظم وضبط،صفائی کی صورتحال اور معیار تعلیم خوداس بات کاثبوت ہے کہ ان کے ادارے میں آگے بڑھنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے انہوں نے تو ایک طرح سے پیشگوئی بھی کردی کہ جلد ہی جامعہ عثمانیہ ایک بہترین یونیورسٹی کی صورت میں سامنے آئے گا انہوں نے یونیورسٹی کی طرف سے جامعہ کے طلباء کرام کے لیے یونیورسٹی کی سہولیات کے استعمال کی دعوت بھی دے ڈالی پاکستان جیسے گھٹن زدہ ملک میں ایک مدرسہ میں ہونے والی یہ شاندار اور پروقار تقریب کسی بھی طور تازہ ہوا کے پرکیف جھونکے سے کم نہ تھی اگر ملک بھر کے دینی ادارے اسی ڈگر پر چلنے لگیں تو مولوی اور مسٹر کافرق ختم کرنے میں بہت مدد مل سکے گی ساتھ ہی ایک تربیت یافتہ اوراعلیٰ تعلیم یافتہ نسل سامنے آنے سے نفرتوں اور عدم برداشت کے آگے بند بھی باندھا جاسکے گا حکیم محمد سعید مرحوم کہاکرتے تھے کہ اس قوم کو تعلیم سے زیادہ تربیت کی ضرورت ہے اورہمارے تعلیمی اداروں جن میں سکول کالج یونیورسٹیاں سب شامل ہیں آج ڈگریاں تو تھما رہے ہیں مگر کردار سازی کااہم نکتہ فراموش کردیاگیاہے جس کی وجہ سے پھر تعلیم یافتہ ان پڑھوں کی نسل سامنے آرہی ہے ان حالات میں جامعہ عثمانیہ کی کاوشوں کاادراک کرنا ضروری ہے تعلیم وتربیت کے لیے مفتی غلام الرحمن ملک ملک جاکر تحقیق کے ذریعہ نت نئی کونپلیں تلاش کرکے لاتے ہیں جس کو پھر جامعہ عثمانیہ کی تجربہ گاہ میں لگاکر ثمر آور اشجار کی صورت دینے کے لیے ایک پورا سسٹم کام کررہاہے اور اس سسٹم کو آج ہم سب کی بھرپور سپورٹ کی ضرورت ہے۔