محبت اِحساس اور بیداریئ اِحساس کا مجموعہ ہوتی ہے اور یہی ”احساس کا کرب“ اُن اہل پشاور کے لئے باعث تشویش و تفکر بنا ہوا ہے جو ”پھولوں کی اِس شہر“ میں فضائی آلودگی بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں بالخصوص گنجان آباد اندرون شہر کے رہنے والوں کے لئے یہ صورتحال بیماریوں اور تکالیف کا مؤجب ہے۔ مدعا یہ ہے کہ پشاور میں کبھی بھی اِس قدر ’گرد و غبار‘ دیکھنے میں نہیں آیا اور نہ سردیوں کا موسم اِس قدر ’تخریب کار‘ رہا ہے کہ ایک طرف بجلی و گیس کی فراہمی یقینی نہیں اور دوسری طرف فی من سوختہ لکڑی اور کوئلے کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے جبکہ ضلعی انتظامیہ جو ہر چیز کے نرخ مقرر کرتی ہے لیکن سوختہ لکڑی اور کوئلے کی قیمتیں مقرر کرنے کی جانب متوجہ نہیں ہیں۔پشاور شہر اور اِس کے اردگرد مضافاتی علاقوں میں فضائی آلودگی کے تین محرکات ہیں۔ پہلا محرک پرانے آٹو رکشا ہیں‘ جو کثیف دھواں اُگلتے ہیں۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ دھواں اُگلنے والی کمرشل گاڑیوں کا خاتمہ ’بس رپیڈ ٹرانزٹ (BRT)‘ منصوبے کے ثمرات و مقاصد کا حصہ تھا لیکن تاحال پچاس سال اور اِس سے بھی زیادہ پرانی منی بسیں‘ فورڈ ویگنز جوں کی توں رواں دواں ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر کہا جائے تو کسی کو ا س بات سے کوئی غرض نہیں کہ پشاور کی فضائیں کس قدر زہر آلودہ ہو چکی ہیں اور انہیں مزید آلودہ کرنے کا سلسلہ کس تیزی سے جاری ہے۔ پشاور کی فضائی آلودگی کا دوسرا محرک ’بھٹہ خشت‘ ہیں۔ اینٹوں کے یہ بھٹے اگرچہ پشاور شہر کے مضافاتی (دور دراز) علاقوں میں قائم ہیں لیکن ان میں بعض سستے ایندھن کے ذرائع (کوئلہ‘ ربڑ اور پلاسٹک) استعمال کرتے ہیں اِس لئے کثیف دھویں کی لہریں فضا میں زیادہ بلند نہیں ہوتی اور ہوا کے ساتھ پشاور شہر کی جانب سفر کرتی ہیں جہاں گاڑیوں اور دیگر محرکات کی وجہ سے پیدا ہونے والی گرمی کے سبب ہوا کا خلأ آس پاس سے ہوا کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پشاور میں پھیکی دھوپ کا نظارہ کرنے والے سردی کے موسم میں بارشوں کے تسلسل سے متعلق اپنی یادوں پر افسردہ ہیں۔ فضائی آلودگی کا تیسرا محرک مال بردار اور بڑی مسافر گاڑیوں کا اندرون شہر اور پشاور سے گزرنے والے جی ٹی روڈ و ذیلی سڑکوں کا استعمال ہے۔ اندرون شہر میں اشرف روڈ سے چوک یادگار براستہ پیپل منڈی اور کابلی دروازے تک ہول سیل منڈیاں قائم ہیں جہاں سے اجناس اور اشیاء پورے خیبرپختونخوا کو فراہم (سپلائی) ہوتی ہیں۔ اِن ہول سیل منڈیوں کے لئے اجناس و اشیا پنجاب و سندھ کی منڈیوں سے یہاں لائی جاتی ہیں اور بڑے ٹرک اور کنٹینروں کا سر شام سے پشاور میں داخلہ و اخراج شروع ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح پشاور کے نجی تعلیمی ادارے طلبہ کی آمدورفت کے لئے جو بڑی بسیں استعمال کرتے ہیں وہ زیادہ تر پرانی ہیں اور اُن کے انجنوں کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے بھی فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے صوبائی فیصلہ سازوں کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ایک وقت وہ تھا جب پشاور میونسپلٹی کے ’بہشتی‘ کہلانے والے ملازمین ہوا کرتے تھے۔ اِن ملازمین نے چمڑے سے بنی ہوئی مشکیں (مشکیزے) اُٹھائے ہوتے تھے اور یہ ہر صبح شاہراؤں اور گلی کوچوں میں پانی کا چھڑکاؤ کیا کرتے تھے جس کے بعد خاکروب (جھاڑو کش) آتے اور یوں شہر نکھرا نکھرا رہتا۔ پانی کے چھڑکاؤ کی وجہ سے گردوغبار بھی نہیں اُڑتا تھا لیکن بعد ازاں مختلف قسم کے تجربات نے پشاور میں بالعموم اور پشاور شہر میں بالخصوص صفائی ستھرائی کی صورتحال کو شدید متاثر کیا ہے۔ پشاور کو فضائی آلودگی اور تجاوازت سے پاک کرنے کے سلسلے میں بار بار اور بارہا تجربات کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ پشاور سے دلی محبت رکھنے والے نوحہ کناں ہیں اور ’اپنے شہر‘ کی آب و ہوا کی وہ تمام خوبیاں بحال دیکھنا چاہتے ہیں جن پر گرد و غبار حاوی ہیں۔ پھیکی پھیکی دھوپ کنارے‘ ہر سو گرد و غبار: بوجھل بوجھل چاند ستارے‘ ہر سو گرد و غبار…… نگر نگر تھے باغ باغیچے‘ دہر تھا پھولوں کا: زہر آلودہ شہر ہمارے‘ ہر سو گرد و غبار…… مٹی مٹی ہو گئے وہ بھی جن کے نام نشان: اُوجھل ہو گئے بُرج مینارے‘ ہر سو گرد و غبار……