حالیہ سیلاب سے متاثرہ خیبرپختونخوا کے اضلاع میں کسانوں کے لئے 10 ہزار روپے فی ایکڑ ’ریلیف پیکج‘ کا اعلان کیا گیا جس کے بارے میں چھوٹے بڑے کاشتکاروں اور کسانوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ سیلاب سے صرف کھڑی (تیار) فصلوں کا ہی نہیں بلکہ زرعی اراضی کا بھی نقصان ہوا ہے جسے دوبارہ کاشتکاری کے لائق بنانے کے لئے بھاری مشینری یا پھر برسوں کی محنت درکار ہو گی۔ دوسری اہم بات سیلاب کی وجہ سے زرعی اراضی کی حد بندی ختم ہو گئی ہے اور کئی مقامات پر اب یہ معلوم کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ کس کاشتکار کے زیراستعمال زمین کتنی تھی۔ اِس سلسلے میں اندازے اور افہام و تفہیم سے معاملات طے کر لئے گئے ہیں لیکن ایسے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں ایک ہی خاندان اور ایک ہی گاؤں سے تعلق رکھنے والے زمین کی حد بندی سے جڑے معاملات کی وجہ سے مشت و گریباں ہیں اور یہ تنازعات خاندانی دشمنیوں میں بدل سکتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں زرعی پیداوار اور زرعی اراضی کے نقصانات تو شمار کر لئے گئے ہیں لیکن اِس کی وجہ سے زرعی معیشت و معاشرت میں آنے والی دراڑوں کو پُر ہونے میں شاید کئی صدیاں درکار ہوں گی۔ سیلاب متاثرین کی بڑی تعداد کو اِس بات سے بھی شکایت ہے کہ سیلاب سے ہوئے نقصانات کے تخمینہ جات لگانے میں اُن سے خاطرخواہ مشاورت نہیں کی گئی اور نقصانات کا ایک جیسا ازالہ اِس حقیقت کا عیاں ہے کہ آرام دہ دفاتر میں بیٹھ کر جس طریقے سے فیصلہ سازی کی گئی ہے یہ ماضی کی طرح درست نہیں۔ ذہن نشین رہے کہ حکومت کی جانب سے دس ہزار روپے فی ایکڑ کے ریلیف پیکیج کو مسترد کرتے ہوئے سیلاب سے متاثرہ کسانوں نے معاوضے کی رقم میں اضافے اور زرعی مصنوعات یعنی آئندہ فصلوں کے لئے پیداواری ضروریات کی مفت فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔ سیلاب سے قبل خیبرپختونخوا کے کسان و کاشتکار زراعت کو منافع بخش بنانے کے لئے زرعی پیداواری مصنوعات پر ٹیکسوں میں چھوٹ اور زراعت کے لئے استعمال ہونے والی بجلی پر رعایت کا مطالبہ کر رہے تھے۔ چھوٹے کسانوں کا یہ مطالبہ بھی تھا کہ اُنہیں مفت ’سولر ٹیوب ویل‘ فراہم کئے جائیں۔حالیہ سیلاب سے متاثرین کے ایک نمائندہ وفد کی ذرائع ابلاغ سے ملاقات میں کاشتکاروں کے اُن مسائل کو اُجاگر کیا گیا جو سیلاب سے قبل اور سیلاب کے بعد اِن محنت کشوں کو درپیش ہیں۔ کاشتکاروں کا بنیادی مطالبہ سیلاب سے متاثرہ اراضی کی بحالی کے لئے دی جانے والی امداد (دس ہزار روپے فی ایکڑ) میں اضافے کا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ چھبیس اگست کے روز اچانک آنے والے سیلاب سے خیبرپختونخوا میں ہزاروں ایکڑ زمین پر لگی گنے‘ مکئی اور سبزی وغیرہ کی فصلیں جبکہ پھلوں کے باغات کو نقصان پہنچا ہے اور اصولاً ہر کاشتکار کے نقصانات کا تخمینہ زمینی سروے اور خلائی سیارے کی تصویر سے باآسانی لگایا جا سکتا تھا لیکن تکنیکی وسائل استعمال کرنے کی بجائے فیصلہ سازوں نے دس ہزار روپے فی ایکڑ امداد کی تجویز پر اتفاق کیا۔ کاشتکار اِس بات پر بھی حیران ہیں کہ صوبائی حکومت کو غلط مشورے دینے والی افسرشاہی (بیوروکریٹوں) کی سخت سرزنش کیوں نہیں کی گئی جنہوں نے یہ تجویز دی تھی! کاشتکاروں کے اِس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس نہ ہو کہ حالیہ سیلاب نے زمینوں کو بنجر بھی بنایا ہے اور یہ صورتحال اِس حد تک تشویشناک ہے کہ زرعی معیشت و معاشرت پر انحصار کرنے وہ کنبے جو کبھی غذائی تحفظ رکھتے تھے اور ایک باعزت و بابرکت زندگی بسر کر رہے تھے ایسے اکثریتی گھرانوں کے لئے بعد از سیلاب اپنے کنبوں کی کفالت کرنا بھی ممکن نہیں رہا اور وہ پائی پائی کے محتاج بن گئے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں حالیہ سیلاب سے متاثر ہونے والے اضلاع میں ’چارسدہ‘ بھی شامل ہے جہاں کاشتکار خود کو تنہا اور بے آسرا محسوس کر رہے ہیں۔ حالیہ سیلاب کس قدر تباہ کن تھے اِس بات کا اَندازہ ’ضلع چارسدہ‘ کی مثال سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جہاں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 2 لاکھ 18ہزار کنال اراضی سیلاب سے متاثر ہوئی۔ اِس علاقے کی خاص فصل گنا ہے جس کی اکثریتی کاشت سیلاب سے بُری طرح متاثر ہوئی ہے اور جب گنے کا کوئی کھیت متاثر ہوتا ہے تو اِس سے کم از کم تین پیداواری دورانئے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ زیادہ تر کاشتکار گنے کی فصل کی ضروریات قرض لیکر پوری کرتے ہیں اور ایسے کاشتکاروں کو بالخصوص پریشانی لاحق ہے کہ وہ اپنے مالی نقصانات کا ازالہ کس طرح اور کہاں سے پورا کریں گے جبکہ کھیت بنجر (ناکارہ) ہو چکے ہیں۔ ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والے 180 سیلاب متاثرین کاشتکاروں نے حکومت سے رجوع کیا ہے اور اُن کی درخواستوں پر جو مالی امداد دینے کی منظوری دی گئی ہے اُسے ناکافی قرار دیتے ہوئے کاشتکاروں نے اِس بات کا بھی مطالبہ کیا ہے کہ امدادی رقم ملنے کی راہ میں حائل قانونی کاروائی جیسی رکاوٹ جلد مکمل کئے جائیں تاکہ جلد از جلد کاشتکاروں کو امدادی رقومات کی ادائیگی شروع ہو سکے۔ سیلاب متاثرین کسانوں نے جن زرعی مصنوعات کی مفت فراہمی کا مطالبہ کیا اُن میں زرعی ادویات اور ٹریکٹرز و بھاری مشینری بھی شامل ہے تاکہ وہ اپنی زمینوں کو دوبارہ قابل کاشت بنا سکیں۔ چارسدہ کے دریائے خیالی کے کناروں اور اِن سے متصل زرعی علاقے سیلاب سے نسبتاً زیادہ متاثر ہوئے ہیں جبکہ سیلاب نے آبپاشی کے نظام کو بھی برباد کر کے رکھ دیا ہے اور اب بڑی تعداد میں افرادی قوت اور اراضی کی حد بندی کرنے کیلئے سروے کی ضرورت ہے تاکہ زرعی معیشت پھر سے رواں دواں ہو سکے۔ کاشتکاروں نے آبپاشی کے نظام (آبی نالے نالوں) کی بحالی کے لئے خیبرپختونخوا کے محکمہئ آبپاشی کے فیصلہ سازوں سے بھی خاطرخواہ اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔