پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز اختتام کو پہنچی۔ پاکستان کی ستر سالہ کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار قومی ٹیم کو وائٹ واش ہونا پڑا۔اس سے قبل انگلینڈ کی ٹیم نے پاکستان کو ٹی ٹوینٹی میچوں کی سیریز میں بھی شکست سے دوچار کیا تھا۔ لیکن ٹیسٹ میچوں میں قومی ٹیم کی کارکردگی انتہائی غیر معیاری، مایوس کن اور افسوس ناک رہی۔ پنڈی اور ملتان ٹیسٹ میں پاکستان کو میچ جیتنے کے مواقع بھی ملے تھے جو انہوں نے اپنی دفاعی اورناقص حکمت عملی کی وجہ سے ضائع کردئیے۔اس میں انگلش ٹیم کے کپتان بین سٹوکس داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اننگز ڈیکلیئر کرکے پاکستان کو جیتنے کا موقع فراہم کیاتھا یہ ایک بہادر کپتان کا کام ہوتا ہے۔اسے اپنی ٹیم کی اہلیت اور مخالف ٹیم کی کمزوریوں کا بخوبی علم تھا اس لئے انہوں نے پنڈی اور ملتان ٹیسٹ میں رسک لے لیا۔بین سٹوکس کو معلوم تھا کہ ان کے بلے باز وں نے جو ٹارگٹ رکھا ہے بالرز اس کا دفاع کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔کراچی ٹیسٹ تقریبا یک طرفہ تھا۔ پوری سیریز میں انگلینڈ کی ٹیم کھیل کے ہر شعبے میں پاکستانی ٹیم سے بہتر نظر آئی۔ انگلش ٹیم کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ جیسے سست کھیل کو بھی دلچسپ اور سنسنی خیز بنادیا ہے۔وہ ٹیسٹ میچ میں بھی ٹارگٹ کے حصول کے لئے ون ڈے اور ٹی ٹوینٹی کا انداز اپناتے ہیں کسی بھی لمحے ان کے بلے باز دباؤ میں نہیں آتے۔یہی بہترین ٹیم کا خاصا ہوتا ہے کہ وہ آخری گیند تک لڑتی ہے دوسری جانب قومی ٹیم کی حالت یہ تھی کہ اگر اوپنر آوٹ ہوجائیں تو پھر بلے بازوں کی قطار لگ جاتی ہے اور پوری ٹیم ریت کی دیوار کی طرح دھڑام سے گر جاتی ہے۔ ٹیم کی سلیکشن پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیم کے خلاف ایک میچ میں چار نئے کھلاڑیوں کو کھلانے کی کیاتک بنتی تھی اس کا جواب کرکٹ بورڈ، سلیکشن کمیٹی، کوچ اور کپتان کو دینا چاہئے۔بابر اعظم اس سیریز میں بحیثیت کپتان اور بلے باز کے طور پر بھی توقعات پر پورا نہ اتر سکے‘ وہ گیم کو فنشنگ پوائنٹ پر لانے کی صلاحیت سے عاری ہیں کریز پر بھی جب ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ ٹیم کے لئے نہیں۔اپنے کیرئیر کے لئے کھیلتے ہیں۔کھلاڑیوں کا ان فٹ ہونا اور آوٹ آف فارم ہونا بھی ہماری ٹیم کا ایک پرانا المیہ ہے۔ دنیا کی کسی بھی ٹیم کے اہم کھلاڑی کبھی ان فٹ نہیں ہوتے۔شاید اس میں کوچ کا اہم کردار ہے۔ ہمارے تمام فاسٹ باؤلرز ان فٹ ہیں۔بلے باز آوٹ آف فارم ہیں۔ رضوان جیسے ٹی ٹوینٹی اور ون ڈے گیم کے کھلاڑی کو ٹیسٹ میں کھلانے کی کوئی توجیہہ کپتان اور سلیکشن کمیٹی پیش نہیں کرسکتی۔ایک جارح مزاج بلے باز کو اگر تک ٹک کرنے پر مجبور کریں گے تو اس کاانجام وہی ہوگا جو ہم نے موجودہ سیریز میں دیکھا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے
کھلاڑی پوری زندگی سپین اور ڈیڈ وکٹوں پر کھیلنے کے عادی ہیں اس کے باوجود وہ انگلینڈ کے سپنرز کے سامنے بے بس نظر آئے۔فاسٹ اور باونسی وکٹوں پر بھی ہمارے بلے باز ڈرتے ہیں اور سپنرز کو بھی نہیں کھیل پاتے۔شان مسعود، شعیب ملک اور دیگر سینئر کھلاڑیوں کو باہر بٹھا کر دوسروں کو میدان میں اتارنے کے فیصلے کا انجام شاید یہی ہونا تھا۔ ابھی نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آرہی ہے۔ انگلینڈ کے خلاف ٹیم کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ایسا لگ رہا ہے کہ نیوزی لینڈ کے خلاف میچوں کا نتیجہ بھی زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔ چیئرمین پی سی بی ایک پیشہ ور کرکٹر اور کھیل کے نامور تجزیہ کار ہیں ان کی نگرانی اور سربراہی میں قومی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی لمحہ فکریہ ہے۔ایسے حالات میں کہ جب یہ سطور آپ کی نظروں سے گزر رہی ہوں گی یہ بھی ممکن ہے کہ نئے پی سی بی چیئرمین کی تعیناتی ہو چکی ہو۔ اس حوالے سے ممتاز صحافی نجم سیٹھی کا نام زیر گردش ہے جو اس سے قبل بھی پی سی بی چیئرمین کے فرائض انجام دے چکے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے پی ایس ایل کی صورت میں ایک ایسے ایونٹ کی بنیاد رکھی کہ جو ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کرچکا ہے۔ پی ایس ایل سے ہی ملک میں نئے ٹیلنٹ کے سامنے آنے کا سفر تیز ہوا ہے اور اس وقت قومی ٹیم میں بہت سے ایسے کھلاڑی ہیں جو پی ایس ایل سے
ہی سامنے آئے ہیں اور ان کی صلاحیتوں کو پی ایس ایل نے نکھارا ہے۔ اس لئے اگر نجم سیٹھی دوبارہ پی سی بی چیئرمین کی حیثیت سے فرائض سنبھالتے ہیں تو امید ہے کہ قومی ٹیم اور کرکٹ کے حوالے سے کئی اہم فیصلے سامنے آئیں۔ اب جہاں تک قومی ٹیم کی کارکردگی کا سوال ہے تو یہ اس لئے لمحہ فکریہ ہے کہ عرصہ دراز کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ ملک میں بحال ہوئی ہے اور ایسے میں اگر قومی ٹیم کی کارکردگی شاندار رہے تو یہ ایک تیر سے کئی شکار والی بات ہوگی۔ کچھ لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ کا معیار تمام ممالک میں گر چکا ہے اور پہلے کی طرح پانچ روزہ میچز آخری دن تک نہیں جاتے بلکہ حال ہی میں دو ٹیسٹ کرکٹ سٹیٹس رکھنے والے ممالک کے درمیان کھیلئے گئے میچ کا دورانیہ دو دنوں تک ہی محدود رہا۔اس ضمن میں قومی کرکٹ ڈھانچے کی از سر نو تشکیل ضروری ہے تاکہ کھلاڑیوں کو لمبی اننگز کھیلنے میں آسانی رہے۔ کیونکہ اس وقت تو دیکھنے میں یہ نظر آتا ہے کہ زیادہ تر کھلاڑی ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں کھیلتے ہوئے لمبی اننگز کھیلنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھے ہیں‘ یہ الگ بات ہے کہ ٹی ٹونٹی کرکٹ کی مقبولیت زیادہ ہے تاہم ٹیسٹ کرکٹ میں جو مہارت اور صبر و تحمل کے ساتھ سٹریٹجی بنانے کے مواقع آتے ہیں اس کا ٹی ٹونٹی میں تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ دوا ننگز کھیلنے والی ٹیم کے کپتان کے سامنے کئی آپشن ہوتے ہیں جن سے وہ استفادہ کرتا ہے اور اس دوران مقابل ٹیم کی صلاحیتوں اور کمزوریوں کو بھی نظر میں رکھنا پڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو پاک انگلینڈ سیریز میں جہاں کھلاڑیوں کے دباؤ کو برداشت کرنے اور موقع پر بہتر کھیل پیش کرنے کی صلاحیتوں کا امتحان ہوا اور اس میں انگلش ٹیم بدرجہا بہتر نظر آئی وہاں کپتان کی سٹریٹجی اور پلاننگ کی مہارت بھی کھل کر سامنے آئی۔ اس ضمن میں انگلینڈ کے کپتان بین سٹوکس نے میدان مار لیا اور اس کے فیصلے یقینا اس قابل تھے کہ ان کی داد دی جائے۔ بین سٹوکس نے پہلے تو اپنے آپ کو بطور آل راؤنڈر منوایا ہی ہے تاہم اس نے اب بطور کپتان بھی اپنے آپ کو منوایا اور یہ ثابت کیا کہ وہ میدان میں کھلاڑیوں کے برموقع استعمال کے ساتھ ساتھ فیصلہ کرنے میں بھی مہارت اور جرات رکھتے ہیں۔ پاک انگلینڈ ٹیسٹ سیریز میں بین سٹوکس کے جتنے بھی فیصلے کئے ان کا نتیجہ انگلینڈ کے حق میں ہی آیا اور کئی مقامات پر تو بین سٹوکس نے تجزیہ نگاروں کی رائے کو غلط ثابت کیا‘ٹیس کرکٹ میں اپنے کھوئے ہوئے مقام کو پانے کیلئے ضروری ہے کہ ہم ان نامی گرامی ٹیسٹ کرکٹرز کی خدمات سے ضرور استفادہ کریں جنہوں نے پاکستان کو ٹیسٹ کرکٹ میں ایک نمایاں مقام دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس وقت وہ اپنی مہارت کو نئی نسل کو منتقل کرنے کیلئے کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اب جب کہ پی سی بی کی نئی انتظامیہ سامنے آنے والی ہے اس حوالے سے عنقریب اہم ترین فیصلے دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔