ملک کے دیگر حصوں کی طرح پشاور سمیت خیبرپختونخوا کی ’اوپن مارکیٹ‘ سے ڈالر تقریباً غائب (ناپید) ہو چکے ہیں جبکہ انٹر بینک مارکیٹ میں پیدا ہونے والے اِس بحران کی وجہ سے غیر ملکی ادائیگیاں رکی ہوئی ہیں۔ کرنسی مارکیٹ پر درآمدات و برآمدات اثرانداز ہوتی ہیں اور یہ خبریں بھی کرنسی مارکیٹ کو متاثر کرتی ہیں کہ قومی ائر لائنز کے واجبات ادا کرنے یا بندرگاہوں پر انتظار کرنیوالے درآمدی سامان کی ادائیگی سے قاصر ہے اور درآمدات کے لئے جاری کئے جانے والے مالیاتی ضمانت کے خطوط (لیٹر آف کریڈٹس) کھولنا چیلنج بن گیا ہے۔ الغرض ہر وہ قومی لین دین پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے جس میں ادائیگی کسی غیرملکی کرنسی میں کرنا ہوتی ہے۔ امریکی ڈالر کی قدر میں اضافے کا تعلق صرف پاکستان کی معاشی صورتحال سے نہیں بلکہ اِس میں اہم کردار روس یوکرین جنگ نے بھی ادا کیا ہے۔ روس سے گیس اور تیل کی فراہمی میں کٹوتی سے یورپی یونین کی معیشتیں متاثر ہوئیں ہیں لیکن امریکہ خود کفیل ہونے کی وجہ سے مضبوط رہا۔ اس کے نتیجے میں یورو کے مقابلے میں ڈالر مضبوط ہوا اور اِس کی طلب میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔ جب روس نے تیل کے خریداروں سے روبل (قومی کرنسی) میں ادائیگی کرنے کے لئے کہا‘ تو اس کی وجہ سے ڈالر کی طلب میں اضافہ ہوا کیونکہ سستے روسی تیل خریدنے کی امید رکھنے والے ممالک نے روبل لینے کے لئے ڈالر خریدنا شروع کر دیئے۔ دوسری طرف دنیا بھر میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معیشتوں کے مرکزی بینکوں بشمول پاکستان نے افراط زر روکنے کے لئے سود کی شرح میں اضافہ کیا لیکن سود کی بلند شرحوں کے علاؤہ اشیا‘ اجناس اور خدمات کی قیمتوں میں اضافے نے اضافی مسائل پیدا کئے۔ اُوپن مارکیٹ کے کرنسی ڈیلر ’آن دی ریکارڈ‘ بات چیت نہیں کرنا چاہتے۔ اِن میں سے اکثر کرنسی ڈیلروں کا دعویٰ ہے کہ امریکی ڈالر کے علاوہ دیگر غیر ملکی کرنسیوں کی کمی نہیں۔ فی الوقت صرف ڈالر دستیاب نہیں اور اس کی بنیادی وجہ ڈالروں کی خریداری کا غیرمعمولی رجحان ہے کہ چھوٹے بڑے سرمایہ کار ڈالروں کو زیادہ محفوظ مالیاتی جنس سمجھ رہے ہیں جبکہ یورو‘ برطانوی پاؤنڈ‘ درہم یا سعودی ریال جیسی دیگر کرنسیاں اِس وجہ سے نظرانتخاب نہیں کیونکہ اُن کی قدر میں ڈالر کی طرح اضافہ نہیں ہوتا تاہم مارکیٹ جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ دیگر کرنسیاں حوالہ مارکیٹ کی شرح پر دستیاب نہیں اور تقریباً ہر کوئی اہم غیر ملکی کرنسیوں پر پریمیم چارج کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ صرف چند بڑے کرنسی ایکسچینجرز اب بھی یورو یا پاؤنڈ اسٹرلنگ جیسی دیگر کرنسیوں کو فروخت کر رہے جبکہ زیادہ تر کرنسی ڈیلروں کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس کوئی غیرملکی کرنسی نہیں ہے۔ کرنسی مارکیٹ کے بارے اگرچہ کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا لیکن چند ایسے امور ہیں جنہیں توجہ سے دیکھنا چاہئے جیسا کہ امریکہ اور یورپی ممالک میں تعطیلات (کرسمس اور نیا سال) کی وجہ سے سیاحتی سیزن شروع ہو چکا ہے اور مسافروں کا غیرمعمولی رش رہتا ہے۔ یہ سیاح ہر سال امریکہ‘ یورپ اور مشرق وسطی کے ممالک کا سفر کرتے ہیں۔ جہاں اشیا ء اور خدمات کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈالروں کی خریداری بھی زیادہ کی جانے لگی ہے اور کسی بھی ملک کو جانے والوں کی پہلی ترجیح امریکی ڈالر ہوتے ہیں جو اِس کرنسی کی کمی کے عوام میں بنیادی محرک ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈالر کی وقتی (عارضی) طلب میں اضافے کی وجہ سے یہ سبھی مشکلات پیدا ہوئی ہیں تو اِس کا جواب نفی میں ہے بلکہ عالمی معاشی مندی کی وجہ سے بھی امریکی ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ کیلنڈر سال 2022ء میں یورو ڈالر کے مقابلے میں کم ہوکر نومبر کے پہلے ہفتے میں 0.98 ڈالر تک گر گیا تھا۔ سال کے آغاز میں یورو کی قیمت 1.14 ڈالر تھی لیکن سترہ دسمبر کو اس کی قیمت 1.06 ڈالر تھی۔ اسی طرح پاؤنڈ کی شرح میں بھی اتار چڑھاؤ آیا جو برطانیہ میں رہنے کی لاگت کے بحران کی وجہ سے بڑھ گیا تھا۔ اگرچہ اس نے سال کا آغاز 1.351 کی قدر سے کیا تھا لیکن سترہ دسمبر تک 1.21ڈالر تک کم ہوا جو ایک درمیانی سطح تھی لیکن چاہے وہ کرنسی کی اپنی طاقت ہو یا یہ حقیقت کہ اسے پاکستان سے افغانستان اور دیگر ہمسایہ ممالک میں سمگل کیا جا رہا ہے‘ ڈالر کی قلت بہرحال موجود ہے اور یہ ایک بحرانی دور سے گزر رہا ہے جس میں ڈالروں کے خریدار اور فروخت کنندہ یکساں پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں درآمد شدہ خام مال یا نیم خام مال پر انحصار کرنے والی بہت سی صنعتوں کا پہیہ رواں دواں رہنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس اب بھی سرمایہ ہے وہ مقامی معیشت کی بجائے ڈالروں اور دیگر قابل اعتماد کرنسیوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ صارفین کا انٹر بینک ایکسچینج ریٹ پر بھی بہت کم اعتماد ہے جسے حکومت اور سٹیٹ بینک کنٹرول کرتے ہیں اور اگر حکومت چاہتی ہے کہ لوگ بیرون ملک کی بجائے پاکستان میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیں تو کرنسی ریٹ پر نجی ڈیلروں (مارکیٹ) کے اثرورسوخ کو کم کرنا ہوگا تاکہ ڈالر کا حقیقی ایکسچینج ریٹ سامنے آئے۔ موجودہ صورتحال میں انٹربینک اور انٹر مارکیٹ نرخوں میں فرق کی وجہ سے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے اور ایک ’مڈل مین طبقہ‘ سٹے بازی کے ذریعے ڈالر کی قیمتوں میں اضافہ کیا رہا ہے۔ سٹیٹ بینک کا یہ دعویٰ کہ بیرونی ادائیگیوں پر ڈیفالٹ سے گریز کیا جائے گا‘ کاروباری برادری کو اِس بیان سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا‘ کیونکہ کاروباری برادری جو درپیش مسائل اُس وقت تک دور نہیں ہوں گے جب تک مرکزی بینک مارکیٹ میں فاریکس کی کمی دور نہیں کر دیتا۔ اسٹیٹ بینک جو اُمید ہے کہ رواں مالی سال میں اٹھارہ سے بیس ارب ڈالر ترسیلات زر آئیں گے اور اِس امید کی بدولت ملک ڈیفالٹ نہیں ہوگا‘ پاکستان کی معیشت میں بہتری کے آثار موجود ہے اور جلد ہی مشکلات کا دور ختم ہو جائے گا۔