قومی بچت کی مہم

حکومت کو آخر کار توانائی بچانے کا خیال آگیا۔ قومی بچت پروگرام کا اعلان کردیا گیا جس کے تحت ملک بھر میں شادی ہالز رات دس بجے جبکہ دکانیں اور ریسٹورنٹس رات آٹھ بجے بند کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔وفاقی حکومت  کا موقف ہے  کہ شادی ہال، ریسٹورنٹ اور دکانیں بند کرنے سے نو ہزار میگاواٹ بجلی کی بچت ہوگی۔ اور اسے روپے میں تبدیل کریں تو باسٹھ ارب روپے کی بچت ہوسکتی ہے۔ وفاقی وزراء کا کہنا تھا کہ صرف دکانیں بند کرکے بجلی ہی نہیں بچائیں گے بلکہ بجلی سے چلنے والے موٹر سائیکلیں درآمد کرکے تیل کی بھی بچت کی جائے گی۔ 130وولٹ کی بجلی استعمال کرنے والے پنکھوں کے بجائے 40وولٹ بجلی سے چلنے والے نئے پنکھے درآمد کئے جائیں گے۔ پنکھوں کی تبدیلی سے پندرہ ارب تک کی بچت ہوسکتی ہے۔ ٹیوب لائٹس اور پرانے بلبوں کے بجائے ایل ای ڈی بلب استعمال کئے جائیں گے جس سے 23ارب روپے کی بجلی بچائی جاسکتی ہے۔گھروں میں ائرکنڈیشنڈ کے استعمال میں کمی سے مزید نو ہزار میگاواٹ بجلی کی بچت ہوسکتی ہے۔ سڑیٹ لائٹس بھی تبدیل کرکے اربوں روپے کی بجلی بچانا ممکن ہے۔ وزراء نے شکوہ کیا کہ دنیا کے دیگر ملکوں میں دکانیں اور مارکیٹیں شام چھ بجے بند ہوجاتی ہیں لیکن ہمارے دکاندار رات دو بجے تک بیٹھے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بجلی ضائع ہوتی ہے۔ہمیں اپنی عادتیں بدلنی ہوں گی۔قومی بچت پروگرام کے دوسرے مرحلے میں سورج کی روشنی سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لئے گھڑی کی سوئیاں بھی آگے پیچھے کئے جانے کا امکان ہے۔ حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ 20فیصد سرکاری ملازمین کو گھروں سے ہی سرکاری کام کرنے کا شیڈول جاری کیا جائے گا۔ جس سے بجلی کی مزید بچت کی توقع ہے۔قومی بچت پروگرام کے یہ تمام نکات دکانداروں،سرکاری ملازمین اور عوام کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کفایت شعاری اور بچت کے ذریعے معاشی مشکلات سے نکلنا ممکن ہے اور اس میں ہر کسی کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکومت اگر کوئی پالیسی اپنائے بھی تو اس میں عوام کی شمولیت اور شرکت سے ہی اس کے نتائج بہتر آئیں گے۔دیکھا جائے تودنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں بھی توانائی وسائل کی بچت کے ذریعے معاشی ترقی کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ وہاں پر چھوٹی گاڑیوں کی بجائے شہر وں میں بسوں اور بڑی گاڑیوں کو رواج دیا گیا ہے تاکہ پٹرول کی بچت ہو۔ اس طرح اب الیکٹرک گاڑیوں کو بھی سڑکوں پر بڑی تعداد میں لایا گیا ہے اس سے ایک طرف ماحولیاتی آلودگی کا  مسئلہ حل کرنے میں مدد ملے گی تو دوسری طرف توانائی کی بچت کا ہدف بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ اس طرح اگر ہماری حکومتیں بھی اس سمت میں قدم اٹھائیں تو یہ کوئی انہونی نہیں بلکہ اس کے بہتر نتائج ہی سامنے آئیں گے۔ کفایت شعاری اور بچت کے ذریعے مالی مشکلا ت کو کم کیا جاسکتا ہے۔اس وقت تو یہ صورتحال ہے کہ ہمارے ہاں چھوٹی گاڑیوں کا استعمال حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے اور سڑکوں پر گاڑیوں کی گنجائش ہی ختم ہوگئی ہے۔ اس کا مقصد یہ نہیں کہ ترقی ہو رہی ہے بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ توانائی کے وسائل پر دباؤ بڑھنے لگا ہے اور اس کے نتیجے میں تیل درآمد کرنے پر کثیر زر مبادلہ خرچ ہوگا۔اب اس سلسلے میں عملی قدم اٹھانے کا مرحلہ آگیا ہے۔تاہم اس لئے ضروری ہے کہ بات صرف اعلانات تک محدود نہ رہے بلکہ عملی طور پر ہر شعبہ زندگی میں کفایت شعاری کا اظہار ہو چاہے اس کا تعلق حکومتی امور سے ہے یا پھر دیگر مصارف سے‘اگر ہم سے ہر کوئی بحثیت مجموعی کفایت شعاری کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وسائل پر پڑنے والے دباؤ کو کم کیا جا سکتا ہے اور معاشی مشکلات پر قابو پانے میں کامیابی نہ ملے۔