وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ افغانستان کو بتا دیا گیا ہے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے حملوں پر خاموشی اختیار نہیں کی جائے گی اور یہ پاکستان کے لئے ”ریڈ لائن (برداشت کی آخری حد)“ ہے۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ افغان طالبان کو بتایا گیا ہے کہ اگر تحریک طالبان پاکستان کو نہ روکا گیا تو ہمارے (پاکستان و افغانستان) تعلقات نہ چاہتے ہوئے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ وزیرخارجہ کا یہ بیان دہشت گردی کی نئی لہر (رونما ہونے والے پے در پے واقعات کی تعداد میں اضافے) کے باعث آیا ہے جس میں سیکورٹی ادارے ’ہائی الرٹ‘ ہیں اور بنوں میں سیکورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنانے اور اُن کی شہادت پر ملک اُداس ہے۔ رواں سال (دوہزاربائیس) کے دوران خیبر پختونخوا میں پولیس فورس پر مختلف قسم کے حملوں میں 120سے زائد پولیس اہلکار شہید اور ایک سو پچیس سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ جنوری سے مارچ (دوہزاربائیس) کے دوران پیش آنے والے 7 دہشت گرد حملوں میں لاہور دھماکہ (بیس جنوری)‘ کیچ حملہ (پچیس جنوری)‘ پنجگیر اور نوشکئی کاروائیاں (دو فروری)‘ کوئٹہ دھماکہ (دو مارچ)‘ سبی خودکش حملہ (تین مارچ)‘ پشاور مسجد حملہ (چار مارچ) اور سبی دھماکہ (پندرہ مارچ) شامل ہیں۔ اپریل سے جون (دوہزار بائیس کے دوران 4 دہشت گرد حملے ہوئے اِن میں کراچی یونیورسٹی حملہ (چھبیس اپریل)‘ کراچی صدر دھماکہ (بارہ مئی)‘ میرام شاہ خودکش حملہ (پندرہ مئی) اور کراچی بولٹن مارکیٹ بم دھماکہ (سولہ مئی) شامل ہیں۔ جولائی سے ستمبر (دوہزاربائیس) ایک دہشت گرد حملہ سوات (تیرہ ستمبر) کے روز پیش آیا جبکہ اکتوبر سے دسمبر (دوہزاربائیس) کے درمیانی عرصے میں 4 دہشت گرد حملے رونما ہو چکے ہیں۔ حکومت اِس نتیجے پر بھی پہنچی ہے کہ اِن سبھی دہشت گرد حملوں کے تانے بانے افغانستان سے جا ملتے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات دو ہمسایہ ممالک جیسی حقیقت رکھتے ہیں اور اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان پر کسی بھی جماعت یا گروہ کی حکومت ہو‘ پاکستان کے لئے افغانستان دوستی کا سلسلہ جاری رہتا ہے البتہ ماضی کی کئی افغان حکومتیں پاکستان سے گرمجوش تعلقات رکھتی تھیں۔ طالبان کی جانب سے کابل پر قبضے اور وہاں عبوری حکومت قائم کئے ہوئے سولہ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ملک معاشی بحران میں پھنسا ہوا ہے۔ ایسے میں تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ پاکستان سمیت پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کئے جاتے اور عالمی برداری کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو بھی پورا کیا جاتا تاکہ عالمی برادری افغان حکومت کو تسلیم کرے اور اس کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کرکے اس کی مدد کرے۔ پاکستان کیلئے افغانستان میں امن اور وہاں پر ترقی کاعمل اس لئے بھی اہم ہے کہ افغانستان میں بدامنی اور بدحالی سے پاکستان براہ راست متاثر ہورہا ہے۔ ان دنوں جو افغانستان میں حالات ہیں اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عالمی برداری افغانستان میں موجود حکومت کے روئیے پر نظر رکھے ہوئی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دے، تاہم اس لحاظ سے افغان حکومت ابھی کامیاب نظر نہیں آرہی۔