انتخابی اصلاحات کی ضرور ت 

ملک تیز ی سے الیکشن کی طرف بڑھ رہاہے پی ٹی آئی کی کوشش ہے کہ قبل ازوقت الیکشن کے لئے راہ ہموار کی جائے جبکہ پی ڈی ایم او راتحادی جماعتیں اگلے سال اکتوبر میں الیکشن کی بات کررہی ہیں بہرحال جوبھی ہوالیکشن میں وقت کم رہ گیاہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کے تجربات اور مشاہدات کاجائزہ لے کر فریقین سنجیدہ انتخابی اصلاحات پر ٹھوس اور تعمیری بات چیت کی راہ نکالیں کیونکہ موجودہ انتخابی نظام کی بعض کمزوریا ں مسلسل سامنے آرہی ہیں جس سے پھر طالع آزماؤں کو اپنے مقاصد کے حصول میں مددملتی ہے قائداعظم کی بے وقت وفات نے ان کے پاکستان کو جاگیرداروں، وڈیروں، لٹیروں، سرمایہ داروں، مفاد پرست سیاست دانوں اور فوجی ڈکٹیٹروں کے دستِ تسلط میں گروی رکھ دیا دیکھتے ہی دیکھتے ایسا نظام قائم ہوگیا جس کے تحت اسلامی جمہوری ریاست کے خدّوخال آغازِ سفر میں ہی دھندلا گئے۔ وہ لوگ عنانِ حکومت پر قابض ہو گئے جو اس ساری خون آشام جدوجہد آزادی میں شریک ہی نہیں تھے چنانچہ اس قبضہ گروپ نے نوزائیدہ ملک کو نوچنا شروع کیا اور ٹھیک 25 سال بعد اسے دو لخت کر دیا‘بچے کھچے پاکستان کو گزشتہ 51 برسوں سے باری باری اِسی ظالمانہ اور باطل پرست نظام کے زیر سایہ سیاسی طالع آزماؤں اور فوجی ڈکٹیٹروں نے تختہ مشق بنایا ہوا ہے‘ اس پورے عرصے میں جو طبقہ مکمل طور پر نظر انداز ہوا وہ اس ملک کے سفید پوش اور غریب عوام تھے پاکستان کو درپیش حقیقی مسائل مثلاً معیشت، معاشرت، تعلیم، صحت کے اداروں کی بہتری، کرپشن، لوٹ مار، طبقاتی تقسیم، صوبائی لسانی اور مذہبی منافرت جیسے بنیادی مسائل کو ختم کرنے کیلئے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی مہنگائی جو کئی سو گنا بڑھ گئی ہے اس کی روک تھام کیلئے نہ صرف کوئی قدم نہیں اْٹھایا گیا بلکہ مبینہ طورپر پارلیمنٹ اور کابینہ کے فاضل ممبران براہِ راست چینی، آٹے، چاول، گھی، پٹرول اور آلو، پیاز جیسے بحرانوں کا سبب بنتے رہے صوبائیت اور برادری اِزم کے منفی جراثیم میں اضافہ ہوا،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 75 سال بعد بھی ہم اس نظام کا حصہ بن کر اپنی آئندہ نسلوں کیساتھ بددیانتی کے مرتکب ہوتے رہیں گے؟ بعض ناقدین بجاطورپر کہتے ہیں کہ موجودہ نظام انتخاب کے تحت جو بھی حکومت بنتی ہے صحیح معنوں میں اقلیتی حکومت ہوتی ہے۔ چونکہ اس نظام کے تحت ایک امیدوار کل رجسٹرڈ ووٹوں کا بہت تھوڑا حصہ لے کر بھی کامیاب ہو 
سکتا ہے۔ اپنے حریف امیدواروں سے محض ایک ووٹ کی سبقت ہی کامیابی کیلئے کافی ہے اس کی نمائندگی کی حقیقت اس تجزیے سے سامنے آتی ہے فرض کیجئے ایک حلقہ انتخاب میں ایک لاکھ رجسٹرڈ ووٹر ہیں ان میں سے 50,000 افراد نے اپنا حق رائے دہی اپنے پسندیدہ امیدواروں کے حق میں استعمال کیا۔ کل 5 امیدواروں نے انتخاب میں حصہ لیا ایک امیدوار نے 12,000 ووٹ حاصل کئے، دوسرے نے 11,500 ووٹ حاصل کئے، تیسرے نے 11,000، چوتھے نے 9,500 اور پانچویں نے 8,000 ووٹ حاصل کئے۔ اس طرح موجودہ نظام کے تحت 12,000 ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار اس حلقے کا نمائندہ قرار دے دیا جائیگا حالانکہ 38,000 افراد اسے نمائندہ نہیں بنانا چاہتے اور 50,000 افراد نے بوجوہ اپنا حق رائے دہی استعمال ہی نہیں کیا مگر وہ صرف اس لئے کامیاب قرار دیا گیا کہ اس نے اپنے حریف امیدوار کے مقابلے میں 500 ووٹ زیادہ لئے ہیں اور اب وہ ایک لاکھ افراد کے حلقہ انتخاب کا نمائندہ تصور کیا جائیگا۔مندرجہ بالا تجزیے کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کے تمام  انتخابات کا جائزہ لیں تو ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی جہاں امیدوار محض چند ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب ہوئے اور پورے حلقہ انتخاب کے نمائندے قرار دیئے گئے اور مجموعی طور پر برسر اقتدار آنیوالی سیاسی جماعتوں نے بھی بہت کم ووٹ حاصل کئے۔ مثلاً 1970ء  کے انتخاب میں پیپلزپارٹی کو صرف 38.9 فیصد ووٹروں کی تائید حاصل تھی۔ 1988ء  کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے 37.63 فیصد ووٹ حاصل کئے اور 45 فیصد نشستیں حاصل کیں جبکہ اسلامی جمہوری اتحاد نے 29.56 فیصد ووٹ حاصل کئے اور 28 فیصد نشستیں حاصل کیں۔ اس طرح اس نظام انتخاب کے تحت پیپلز پارٹی نے ووٹوں کے تناسب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اور اسلامی جمہوری اتحاد 
نے تناسب سے کم نشستیں حاصل کیں۔ 1990ء  کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کو 37.37 فیصد ووٹ ملے اور نشستیں 106 ملیں یعنی 52.8 فیصد جبکہ پی ڈی اے کو 36.65 فیصد ووٹ ملے اور نشستیں 44 یعنی 22.7 فیصد۔ اس طرح اس نظام انتخاب کے تحت ووٹوں میں صرف ایک فیصد کے فرق سے 62 نشستوں کا فرق پڑ گیا۔اسی طرح اگر ہم انفرادی امیدواروں کی جیت کا تناسب دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں بھی توازن نہیں اور کوئی بھی امیدوار اپنے مدمقابل امیدواروں سے محض ایک ووٹ کی برتری لے کر کامیاب ہو سکتا ہے چاہے اسے رائے دہندگان کی اکثریتی تعداد ناپسند کرتی ہو موجودہ نظام انتخابات کے تحت منعقد ہونیوالے انتخابات اور ان سے بننے والی حکومتوں کو حاصل کردہ ووٹوں اور نشستوں کے تناسب کے جائزے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نظام انتخابات کے تحت نہ تو کوئی رکن پارلیمنٹ عوام کی حقیقی اکثریت کا نمائندہ ہوتا ہے اور نہ ہی ان نمائندوں کے ذریعے بننے والی حکومت عوام کی حقیقی  اکثریت کی نمائندہ حکومت ہوتی ہے جبکہ ایک جمہوری نظام کی لازمی شرط یہ ہے کہ جمہور (عوام کی اکثریت) کو منتخب اداروں میں واضح نمائندگی ملے جو کہ موجودہ نظام میں کسی شکل میں بھی پوری نہیں ہوتی۔اس نظام انتخابات کے ذریعے جتنی بھی حکومتیں بنیں کمزور ثابت ہوئیں  ملک سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی انحطاط کا شکار ہو گیا۔ سیاسی جماعتوں کو اب اس نظام میں نہ تو کسی ٹھوس پروگرام کے پیش کرنے کی ضرورت رہی ہے اور نہ کسی دستور و منشور کی‘ ہر جماعت کو جیتنے والے امیدواروں (Electabals) کی ضرورت ہوتی ہے اور انہی کے ذریعے انتخاب جیتا جاتا ہے‘ اس نظام میں یہی پہلو حکومتوں کو کمزور اور سیاسی نظام کو غیر مستحکم رکھتا ہے ساری جماعتوں کو ماضی میں اس نظام کی خامیوں سے شکایات رہی ہیں توکیابہتر نہیں ہوگا کہ اس بار ہمیشہ ہمیشہ کیلئے شکایات کادروازہ بند کردیاجائے ملک کامستقبل اسی جمہوری پارلیمانی نظام سے جڑا ہواہے فی الوقت اس نظام کے متبادل کوئی دوسرا ایسانظام سامنے نہیں آسکاہے جس پر سب جماعتوں کااتفاق ہولہٰذا اسی نظام میں مزید بہتری کیلئے کوششوں کی ضرورت ہے ہماری سیاسی قیادت اٹھارہویں ترمیم کے ذریعہ ماضی قریب میں آئینی اصلاحاتی پیکج اتفاق رائے سے دے چکی ہیں اسلئے اب ایک اور اصلاحاتی پیکج پر بھی بات چیت شروع کرنے کی ضرورت ہے۔