مسائل کہاں نہیں لیکن پشاور بڑے مسائل میں گھرا ہوا ایک ایسا چھوٹا شہر ہے جہاں ہر مسئلہ اپنی شدت کی وجہ سے نمایاں نظر آتا ہے۔ ایسی ہی ایک مشکل تعلیمی اداروں کو آمدورفت کرنے والے بچوں کی ہے‘ جنہیں خلاف قانون ایسی گاڑیوں میں سفر کرنا پڑتا ہے جس میں بطور ایندھن ’گیس (CNG)‘ استعمال ہوتی ہے‘ سکول ٹرانسپورٹ کے نام پر صرف نجی کاروباری افراد ہی نہیں بلکہ کئی سکولوں کی اپنی بسیں‘ منی وینز اور ہائی ایس (ہائی روف) گاڑیاں بھی ’سی این جی‘ ہی سے چلتی ہیں چونکہ ’سی این جی‘ سلینڈرز کی دیکھ بھال اور باقاعدگی سے معائنہ نہیں کروایا جاتا اِس لئے متعدد حادثات کے بعد پشاور کے ٹریفک پولیس فیصلہ سازوں نے فیصلہ کیا تھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ بالخصوص تعلیمی اداروں سے منسلک آمدورفت کے لئے استعمال ہونے والی ایسی گاڑیاں بالخصوص استعمال نہیں کی جائیں گی جن میں ’سی این جی‘ بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہو لیکن اِس فیصلے پر سختی سے عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ تعلیمی اداروں سے جڑی پشاور کی دوسری مشکل کا تعلق سکول بیگ کے وزن سے ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ”اکتوبر 2020ء“ میں
”خیبرپختونخوا سکول بیگ لمیٹیشن آف ویٹ ایکٹ 2020ء“ نامی قانون متعارف کروایا گیا تھا جس پر دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے حالانکہ اگر سکول بیگ وزن سے متعلق مسئلے کا حل قانون سازی کی بجائے تعلیمی بندوبست پر نظرثانی (اِصلاحات) سے کیا جاتا تو یہ فوری قابل عمل اور لاگو ہو جاتا۔ قانون بنانے کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں اِس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزائیں دینا مقصود ہوں اور اکثریت کو کسی ”عمومی یا خصوصی جرائم“ کا ارتکاب کرنے والوں سے پناہ دیتے ہوئے اُن کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوں چونکہ نجی تعلیمی اداروں میں کروڑوں کی سرمایہ کاری کرنے والے آج کھرب پتی ہیں اور وہ اپنے اجتماعی مفادات کے تحفظ کے لئے قانون ساز اسمبلیوں کا بھی حصہ ہیں‘ اِس لئے بذریعہ قانون سازی بہتری نہیں لائی جا سکتی۔ بچوں کو سکول بیگ میں نصاب تعلیم کی کتب کے علاؤہ کاپیاں (نوٹ بکس) رکھنا پڑتی ہیں جبکہ یہ نوٹ بکس کلاس رومز میں فراہم کی جا سکتی ہیں۔ اِسی طرح بچوں کو ہر مضمون کی الگ الگ ’نوٹس بکس‘ ساتھ لانے کو کہا جاتا ہے جن کا مجموعی وزن سکول بیگ وزن کے 60فیصد سے زائد کے مساوی ہوتا ہے چونکہ سال کے 52 ہفتوں میں تعلیمی سال مجموعی طور پر 30 سے 36 ہفتوں پر مشتمل ہوتا ہے اِس لئے ہفتہ وار یا مہینہ ڈائری کی طرز ’نوٹس بکس‘ تشکیل دی جا سکتی ہیں یوں تدریسی نظام Modular System پر منتقل ہو جائے گا اور سال کے آغاز پر ہی طے ہو جائے گا کہ بچوں کو کس ہفتے یا کس مہینے کون کون سے اسباق‘ کس باقاعدگی سے پڑھنا ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ خیبرپختونخوا میں سکول بیگ سے متعلق مذکورہ قانون سازی کے مطابق نرسری کلاس کا سکول بیگ ڈیڑھ کلو گرام
اور پہلی کلاس کا سکول بیگ قریب ڈھائی (2.4) کلوگرام سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔ دوسری سے پانچویں کلاس کا سکول بیگ 5.3 کلوگرام جبکہ چھٹی سے دسویں کلاسز کا سکول بیگ 5.4کلوگرام سے 6کلوگرام ہونا چاہئے۔ حسب قانون گیارہویں اور بارہویں کلاسز کے بیگ کا وزن زیادہ سے زیادہ 7کلوگرام ہونا چاہئے۔ سکول بیگز کے وزن کی صورت ”کھلے عام“ قانون کی خلاف ورزی کا خاتمہ ہونا چاہئے۔تعلیمی اداروں سے جڑی تیسری مشکل کا سرسری بیان اور تعلق طلبہ کی آمدورفت کے پرہجوم ذرائع سے ہے۔ ٹریفک پولیس پشاور نے سکول ٹرانسپورٹ گاڑیوں کی چھتوں‘ جنگلوں پر بچوں کو بٹھانے یا اُنہیں لٹک کر اور کھڑا ہو سفر کرنے والی گاڑیوں کے خلاف کاروائی کا آغاز کر رکھا ہے اور اِس قسم کی کاروائیاں ہر سال کئی مرتبہ دہرائے جاتے ہیں لیکن یہ کاروائی بھی بالکل اُسی طرح ادھوری چھوڑ دی جاتی ہے جس طرح اصول وضع کیا گیا تھا کہ کوئی بھی پیٹرول پمپ بنا ہیلمٹ موٹرسائیکل سوار کو پیٹرول فروخت نہیں کریگا اور اِس پر چند دن یا ہفتے عمل درآمد بھی ہوا لیکن خاطرخواہ سختی نہیں دکھائی گئی۔