بائیو میٹرک تصدیق کیا ہے؟ ”بائیومیٹرک تصدیق“ کی اصطلاح انسانی جسم کی منفرد خصوصیات سے اخذ کردہ معلومات کے مجموعے کو کہتے ہیں۔ اِس میں انسانی جسم کی فزیولوجی‘ کیمسٹری یا طرز عمل کے بہت سے مختلف پہلوؤں کا استعمال کیا جاسکتا ہے تاہم ’بائیو میٹرک‘ کے کسی بھی اسلوب کے ذریعے تصدیق کے لئے سافٹ وئر (مخصوص ایپلی کیشن) کی ضرورت ہوتی ہے جس کے مجموعی طور پر ”7 عوامل“ ہوتے ہیں اور یہ عوامل کسی فرد کی حیاتیاتی اور طرز عمل کی خصوصیات کا جائزہ لے کر تصدیق یا تردید کرتے ہیں۔ بائیومیٹرک تصدیق کے مراحل میں ’عالمگیریت‘ اور ’انفرادیت‘ کی اصطلاحات کا بھی استعمال کیا جاتا ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی خاص علاقے کے رہنے والوں کی جسمانی خصوصیات دوسروں سے مختلف ہونے کو بھی استعمال کیا جائے تاہم موبائل فون کنکشنزکے حصول یا اِنہیں جاری رکھنے‘ مالیاتی اداروں کے اکاؤنٹس کے حصول اور اِنہیں جاری رکھنے کے لئے وقتاً فوقتاً تصدیق اور الیکٹرانک ووٹنگ جیسے مراحل میں ہاتھ کی اُنگلیوں کے ذریعے بائیومیٹرک تصدیق عمومی رائج اسلوب ہے لیکن کئی صورتوں میں اِسے اختیار نہیں کیا جاتا جس کی بنیادی وجہ جعل سازی کا امکان ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عالمی سفر کرنے والوں کی ’آنکھوں کا بائیومیٹرک (آئرس ویری فیکیشن)‘ کروانی پڑتی ہے۔بائیومیٹرک تصدیق کے ذریعے جعل سازی روکنے کے نیا لائحہ عمل وضع (اختیار) کیا گیا ہے جس کے ذریعے کسی شخص کی انگلیوں کے نشانات چوری نہیں کئے جا سکیں گے۔ نئے ’بائیو میٹرک تصدیقی مراحل‘ درحقیقت ’سافٹ وئر‘ میں تبدیلی کے ذریعے ممکن ہوئے ہیں اور اِن کا اطلاق پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں دہائیوں سے ہو رہا ہے۔ ہمارے فیصلہ سازوں کو اِس جانب توجہ مبذول کرنے کا خیال جعل سازی اور دھوکہ دہی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر آیا ہے اِس کے علاوہ آن لائن مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں جیسا کہ جیز کیش‘ ایزی پیسہ‘ یوپیسہ وغیرہ کے کھاتوں (اکاؤنٹس) تک جعل سازی کے ذریعے رسائی ممکن یا آسان نہیں رہے گی۔ بائیومیٹرک تصدیق کے نئے نظام سے موبائل فون سم (کنکشن) حاصل کرتے ہوئے جعل سازی کا ارتکاب نہیں ہو سکے گا کیونکہ یہ اب سافٹ وئر کے ایک زیادہ بہتر ورژن کا استعمال کیا جائے گا جو ایک انگلی نہیں بلکہ ایک سے زیادہ انگلیوں کے بائیومیٹرک نشانات کی بنیاد پر‘ قومی ڈیٹابیس سے‘ کسی صارف کے کوائف کی تصدیق کرے گا۔ اِس نظام کو ”ملٹی فنگر بائیو میٹرک ویری فیکیشن سسٹم (MBVS)“ کا نام دیاگیا ہے اور بنیادی (ابتدائی) طور پر اِس کا استعمال ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے نئی سم جاری کرنے سے قبل صارفین کی شناخت کے لئے ہوگا جس کے لئے ’نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (NADRA)‘ اور ’ٹیلی کام آپریٹرز‘ کے درمیان ’پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی (PTA)‘ کے صدر دفتر (ہیڈ کوارٹر) اسلام آباد میں معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں۔ پاکستان میں موبائل فون سم حاصل کرنے کے لئے بائیو میٹرک تصدیق کا عمل 28 فروری 2013ء کے روز شروع کیا گیا تھا اور اِس مقصد کے لئے ’نادرا‘ نے ’بائیو میٹرک ویری فیکیشن سسٹم (BVS)‘ متعارف کرایا تھا تاہم حیرت انگیز طور جعل سازوں نے اِس نظام میں موجود خامیوں سے فائدہ اُٹھانا شروع کیا۔ اِس دھوکہ دہی کو روکنے کے لئے ’پی ٹی اے‘ کی جانب سے اطلاعیہ خدمات بھی شروع کی گئیں لیکن ظاہر ہے کہ جعل سازی اور دھوکہ دہی کے رسیا زیادہ ماہر نکلے جو سم کارڈ جاری کرنے سے پہلے صارفین کی شناخت کے لئے ڈیزائن کردہ پرانے بائیومیٹرک سسٹم کو ’بائی پاس‘ کرنے (چکما دینے) میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ رواں برس (ستمبر دوہزاربائیس) میں پاکستان میڈیکل کمیشن نے رجسٹرڈ ڈاکٹروں کے بائیومیٹرک شدہ کوائف مرتب کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اِس مقصد کے لئے مذکورہ نادرا کے BVS سسٹم سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ اِس مرحلے پر واضح نہیں ہے کہ کیا نیا تصدیقی نظام بینکوں اور پاکستان میڈیکل کمیشن کے لئے بھی استعمال ہوگا یا نہیں۔ پاکستان میں موبائل فون (سیلولر) خدمات فراہم کرنے والے تمام اداروں (نیٹ ورکس) (جاز‘ یوفون‘ ٹیلی نار اور زونگ) میں پرانی بائیو میٹرک تصدیقی آلات (ڈیوائسز) کو نئے سسٹم کی ضروریات پورا کرنے کے لئے اپ گریڈ کر دیا گیا ہے۔ فیصلہ سازوں کا خیال ہے اور شاید ایسا ہی ہو کہ تصدیقی نظام میں ردوبدل سے جعلی فنگر پرنٹس کا استعمال کرتے ہوئے نیا سم کارڈ کا حصول ناممکن حد تک دشوار ہو جائے گا کیونکہ نئے نظام میں کسی صارف کے کوائف کی توثیق کے لئے متعدد انگلیوں کے نقوش کی ضرورت ہوگی جبکہ پرانے تصدیقی نظام میں صرف ایک انگلی یعنی انگوٹھے یا کسی دوسری انگلی کے نشان کی ضرورت ہوتی تھی اور ایک انگلی سے حاصل کردہ تصدیق کی بنیاد پر نیا یا ڈپلیکیٹ سم کارڈ جاری کر دیا جاتا تھا۔ نیا نظام بیک وقت دو الگ الگ انگلیوں کے نقوش طلب کرے گا تاہم تصدیق کے مراحل بہتر بنانے میں اگر موبائل کنکشن (سم کارڈ) کسی بھی صارف کے گھر کے ایڈریس پر سرکاری پوسٹ آفس کے ذریعے بھیجی جائے تو اِس اضافی تصدیق سے جعل سازی کے رہے سہے امکانات بھی ختم ہو سکتے ہیں لیکن شاید ہمارے فیصلہ سازوں کو اُس مقام تک پہنچنے میں مزید کئی سال لگیں جہاں وہ سمجھ سکیں کہ پاکستان میں الیکٹرانک جعل سازی اور دھوکہ دہی کس درجہ بلند ہے اور ’ڈارک ویب‘ کے ذریعے پاکستان کا وہ بہترین ٹیلنٹ جو اپنی ذہانت کا اِستعمال زیادہ بہتر (مفید) کاموں کے لئے کر سکتا تھا لیکن غلط راہ پر چل نکلا ہے۔ ایک سے زیادہ انگلیوں کے ذریعے تصدیقی مراحل کا توڑ نکالنا اُن سافٹ وئر ماہرین کے لئے قطعی مشکل نہیں ہوگا جنہوں نے ایک انگلی کے تصدیقی مراحل کو ’ہیک‘ کر لیا تھا۔ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان میں موبائل فون کمپنیوں نے‘ صرف اور صرف اپنے منافع کے لئے جس انداز سے فون کنکشنوں کی فروخت گلی گلی‘ دکان دکان اور چوراہوں پر کرنا شروع کر رکھی ہے اور کئی ایسی صورتیں بھی ہیں جن میں فون سم بلاقیمت بطور خصوصی پیشکش فراہم کی جاتی ہے۔ ایسی تمام پیشکشوں اور جگہ جگہ سم کارڈز کی فروخت کے دراز سلسلے ختم ہونے چاہیئں کیونکہ اِن کی وجہ سے صرف صارفین کے کوائف ہی چوری نہیں ہو رہے بلکہ جرائم پیشہ عناصر بالخصوص ایسے فون کنکشنز کا استعمال کرتے ہیں جو جعل سازی سے حاصل کئے گئے ہوتے ہیں۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ بائیو میٹرک تصدیق ’آنکھ کی پتلی (اندرونی پرت کی جانچ)‘ سے بھی ممکن ہے۔ اگر موبائل فون کمپنیوں اور مالیاتی اداروں (بینکوں) کو مرحلہ وار ’آئرس ویری فیکیشن‘ کا نظام اختیار کرنے میں سرمایہ کاری پر قائل کیا جائے اور اُس سے پہلے قومی کوائف (نیشنل ڈیٹابیس) میں ہر شہری کی ’آئرس ویری فیکیشن‘ شامل (enable) کر دی جائے تو اِس سے الیکٹرانک ’جعل سازی و دھوکہ دہی‘ کے امکانات سوفیصدی ختم ہو جائیں گے۔