اس وقت ملک میں کرپشن کے حوالہ سے بحث زبان زد عام ہے چند سال قبل تک اس حوالہ سے کوئی زیادہ مباحثے نہیں ہوا کرتے تھے محض ایک دوسرے کے سیاسی نظریات کو بنیاد بناکر تنقید کے نشتر چلائے جاتے تھے کرپشن عام لوگوں کامسئلہ ہی نہیں تھا یہ خواص کے مسائل کاحصہ سمجھا جاتا تھا مگر پھر سیاست کے رنگ ڈھنگ بدلتے چلے گئے سوشل میڈیا کے اثرات بڑھے تو ہر کسی کو دل کاغبار نکالنے کاموقع ملتا چلا گیا اور اس وقت ہماری سیاست کا مرکز ی نکتہ کرپشن ہی ہے کوشش کی جاتی ہے کہ مخالف فریق کو کرپٹ ترین ثابت کردکھایاجائے کیونکہ اس وقت سیاسی میدان میں کرپشن کاچورن سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ بک رہاہے سوال یہ پیداہوتاہے کہ وطن عزیز میں کرپشن کا آغاز کب ہوا اس حوالہ سے مختلف نظریات پیش کیے جاتے ہیں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا جاتاہے لیکن یہ سوال جب ایک مرتبہ راقم نے سابق چیف سیکرٹری اور معروف سکالر عبداللہ صاحب سے کیا تھا تو ان کاجواب بہت دلچسپ اور سب سے مختلف تھا ان کاکہناتھاکہ ملک میں کرپشن قیام پاکستان کے فوراًبعد ہی شروع ہوئی جب متروکہ وقف املاک کی الاٹمنٹ کے کیسز شروع ہوئے اس بہتی گنگا میں خوب خوب ہاتھ دھوئے گئے اوریہیں سے ہمارے سرکاری اداروں میں بدعنوانی کی بنیاد پڑی بعد ازاں جب جنرل ایوب کے دور میں بائیس خاندان پیدا ہوئے تو اس کو بھی سرکاری اداروں کی بدعنوانی کے ساتھ جوڑا جاتارہا جنرل ایوب خان کی طرف سے سرکاری زمینوں کی سرکاری افسران میں الاٹمنٹ کو بھی کرپشن کی ایک شکل قراردیاجاتارہا۔جنرل یحییٰ خان نے الیکشن کااعلان کرکے جب مخصو ص سیاسی جماعتوں کو سرکاری فنڈز دیئے تو اسے بھی کرپشن کانام دیاگیا۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں نیشنلائزیشن کی پالیسی بھی کرپشن ٹھہری۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغان جہاد کے لیے آنے والی امریکی امداد پر بھی انگلیاں اٹھائی جاتی رہیں ان کے بعد جب دوبارہ جمہوری دور شروع ہوا تو لوگوں کا خیال تھا کہ سیاستدان اس جمہوریت کا فائدہ اٹھا کر عوام کی تکالیف دور کریں گے مگر ہر مرتبہ ڈھائی 3سال بعد حکومت کرپشن کے نام پر توڑ دی جاتی پھر الیکشن کروائے جاتے ہیں اور عوام پھر دونوں بڑی پارٹیوں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی میں سے کسی ایک کو دوبارہ منتخب کروا دیتی۔ ہارنے والی جماعت، جیتنے والی جماعت پر دھاندلی کا الزام لگا دیتی پھر اسمبلیوں میں خرید و فروخت شروع ہوجاتی۔ فلور کراسنگ یا توڑ جوڑ سے حکومتیں بنتیں اور ٹوٹتیں یا پھر توڑ دی جاتیں۔ کبھی سپریم کورٹ بحال کرتی، کبھی ہائی کورٹ۔ الزام یہ ہوتا کہ سیاستدان کرپٹ ہیں مگر الیکشن میں عوام پھر سے ان کو چن لیتے اگر نظام کو کرپٹ کرنے کی بات کی جائے تو سب سے پہلے جنرل ضیاء الحق نے 50لاکھ روپے فی ایم این اے کی صوابدید پر ترقیاتی فنڈ کے نام پر ان غیر جماعتی سیاستدانوں میں استعمال کیا۔یہ الزامات سامنے آتے رہے کہ سیاستدان 50لاکھ والے بجٹ کو 25سے 30فیصد تک کمیشن لے کر کھاتے گئے اور بعد میں یہ تمام غیر جماعتی سیاستدان سب کے سب سیاسی جماعتوں میں شامل ہوتے گئے۔ کرپشن کی عادتیں بڑھتی گئیں، پھر ضیاء الحق کی حکومت ختم ہوئی تو پی پی پی کی حکومت بنانے میں بڑی توڑ جوڑ ہوئی کیونکہ کسی پارٹی کے پاس اکثریت نہیں تھی، نہ ہی اکیلے مسلم لیگ (ن) اور نہ پی پی پی حکومت بنا سکتی تھی لہٰذا اس توڑ جوڑ نے بھی کرپشن بڑھانے میں کردار اداکیا اور دھڑا دھڑ فلور کراسنگ شروع ہوئی اس کے بعد نوے کی دہائی میں جو کچھ ہوتارہاوہ تاریخ کاحصہ بن چکاہے بدقسمتی سے علاج کرنے کے بجائے مرض کو بڑھایا گیا جس سے کرپشن کرنے والوں کے حوصلے بلند ہوتے گئے۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ عوام مہنگائی سے تنگ اور پسے جارہے تھے۔ اس وجہ سے وہ خاموش رہے اور مخصوص چہروں کو بار بار اسمبلیوں کیلئے منتخب کرتے گئے عوام کا اس میں کیا قصور تھا ان کے پاس کوئی متبادل پلیٹ فارم ہی موجود نہیں تھا پھر سسٹم بھی یہی تھا اس میں تبدیلی کے کوئی آثار نہیں تھے تبدیلی کانعرہ بھی کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے میں ناکام رہا سسٹم کی ناکامی کی وجہ سے ہی سرکار ی اداروں کاحال سب کے سامنے ہے بجلی والوں نے ریکوری کے نام پر رشوت اور ظلم کا بازار پورے ملک میں برپا کر رکھا ہے جس کو چاہتے ہیں جتنے کا بل بھیجیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔روز روز بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے ہر کوئی پریشان ہے جبکہ بڑی بڑی سڑکوں پر دن میں بھی بلب روشن رہتے ہیں۔ مہذب دنیا میں تو ٹیکس اور بل کی وصولیابی پر مراعات دی جاتی ہیں۔ ہم ٹیکس اور بلوں کی وصولیابی کو عذاب بنا چکے ہیں۔ ہر معاملے میں بیوروکریسی اپنا ہاتھ اوپررکھنا چاہتی ہے کہ عوام ان کی صوابدید کے محتاج رہیں۔ آسان قواعد اگرچہ حکومت کی کوشش ہوتی ہے، مگر وہ حکومت کو ڈرا کر فیصلہ اپنے حق میں منوالیتی ہے اسلئے کرپشن میں ان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن نے ایک ملاقات میں جو کچھ کہاتھا وہ بالکل درست تجزیہ تھا کہ اس ملک میں اصل حکومت منتخب نمائندوں کی نہیں رہی اصل طاقت کہیں اورہوا کرتی تھی وقت آگیاہے کہ اب طاقت کااصل منبع عوام کو ہی بنایاجائے اورعوامی نمائندوں کو بھی کرپشن کی بیخ کنی کاایک نکاتی ایجنڈ ا اپنے سامنے رکھناہوگا اگر پارلیمنٹ اپنی توقیر میں اضافہ کرناچاہتی ہے کھوئے ہوئے عوامی اعتماد کو بحال کرناچاہتی ہے تو اسے کرپشن کے ناسور کو اب ہمیشہ کے جڑ سے اکھاڑپھینکنے کیلئے میدان میں آناپڑے گا بصورت دیگر کرپشن کاعفریت سب کچھ نگلنے کیلئے بیتاب دکھائی دے رہاہے سیاستدانوں پرہی سب سے بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کرپشن کے الزامات ہمیشہ سب سے زیادہ ان کے حصہ میں آتے رہے ہیں انکی تصویر ہی سب کو بد نما دکھائی جاتی رہی ہے اب ان کی باری ہے کہ وہ آگے آئیں اینٹی کرپشن کے ایک نکاتی ایجنڈے پر میثاق کو یقینی بناکر جمہوری اورپارلیمانی اداروں کی توقیر بحال کرائیں۔