مذاکرات کا راستہ

روس یوکرین جنگ نے نہ صرف ان دو ممالک کو بلکہ پوری دنیا کو متاثر کیا ہے اور کورونا وبا سے ابھی عالمی معیشت سنبھل نہ پائی تھی کہ اس جنگ نے رہی سہی کسر پوری کردی۔روز اول سے یہ بات واضح تھی کہ یہ جنگ روس نے یوکرین پرقبضے کیلئے نہیں بلکہ یورپ اور امریکہ کو سبق سکھانے کیلئے شروع کی ہے اور اس موسم سرما میں یورپ کوتوانائی کے جس بحران کاسامنا ہے اس نے یورپ کوحقیقت میں  مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔یورپ کی ان مشکلات کو دیکھتے ہوئے ہی شاید روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ ماسکو یوکرین میں دس ماہ سے جاری جنگ کو ختم کرنے کی خاطر بات چیت کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے تاہم اسی کے ساتھ روس کوختم کرنے کی مغربی ملکوں کی کوششوں کی مذمت بھی کی۔روسی صدر پوٹن نے گزشتہ روز ان خیالات کا اظہار ایسے وقت کیا ہے جب خارکیف اور زاپوریژیا سمیت یوکرین کے کئی شہروں میں روس کی جانب سے مسلسل بمباری ہو رہی ہے اور دوسری طرف روس کی طرف سے گیس کی سپلائی بند ہونے سے جرمنی میں حالات بد تر ہوگئے ہیں۔سرکاری ٹیلی ویژن روسیا ون پر نشر ہونے والے انٹرویو میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا کہنا تھا کہہم قابل قبول حل کے لئے ہر ایک ساتھ بات چیت کے لئے تیار ہیں اور اب یہ دوسرے فریق پر منحصر ہے۔ اور ہم مذاکرات سے انکار کرنے والے نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ روس یوکرین میں صحیح سمت میں کام کر رہا ہے کیونکہ مغرب، امریکہ کی قیادت میں روس کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔روسی رہنما کا کہنا تھا کہ مغرب نے 2014 میں میدان انقلاب مظاہروں میں روس نواز صدر کا تختہ الٹ کر یوکرین میں تنازع کا آغاز کیا تھا۔ اس انقلاب کے فورا ًبعد ہی روس نے کریمیا کا الحاق کرلیا تھا اور روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسند قوتوں نے مشرقی یوکرین میں فوج کے خلاف جنگ شروع کردی تھی۔صدر پوٹن کا کہنا تھا،دراصل، یہاں بنیادی چیز ہمارے جیو پولیٹیکل مخالفین کی پالیسی ہے جس کا مقصد روس، ایک تاریخی روس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا ہے۔ پوٹن کا اشارہ اس نظریے کی طرف تھا جس کی رو سے یوکرینی اور روسی عوام ایک ہیں۔ دوسری طرف یوکرین کے صدر کے ایک مشیر نے کہا کہ روس مذاکرات نہیں چاہتا بلکہ وہ ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔روسی صدر کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب اتوار کے روز ہی یوکرین نے دو مرتبہ ملک گیر فضائی الرٹ جاری کیے۔یوکرین کے صدر وولودو میرزیلنسکی کے ایک مشیر میخائل پوڈولیاک نے کہا کہ پوٹن کو حقیقت کی طرف واپس آنے اور یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ روس ہی تھا جو کوئی مذاکرات نہیں چاہتا تھا۔میخائل پوڈولیاک نے ٹویٹر پر کہا کہ روس نے اکیلے ہی یوکرین پر حملہ کیا اور شہریوں کو قتل کر رہا ہے۔ روس مذاکرات نہیں چاہتا بلکہ وہ ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔اس تمام تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ روس  اور یوکرین جنگ کا اختتام مذاکراتی عمل کے نتیجے میں ہی عمل میں آسکتا ہے تاہم یہ عمل کب وقوع پذیر ہوتا ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔