خوشخبری یہ ہے کہ حکومت نے طب (میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں) کے نئے تعلیمی سال (سیشن 2022-23ء) کے لئے قبائلی اضلاع کی مختص نشستوں کی تعداد میں دس بیس یا پچاس فیصد نہیں بلکہ سو فیصد اضافہ کرتے ہوئے قبائلی علاقوں کے طلبہ کے لئے طب کی تعلیم کے امکانات دوگنا کر دیئے ہیں جبکہ یکساں اہم اور ضروری ہے کہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کے طلبہ کے لئے بھی میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں نشستوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ قبائلی اضلاع کو زیادہ اہمیت (ترجیح) دینے کی وجہ اُن کے ہاں پسماندگی بیان کی جاتی ہے۔پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کی جانب سے کئے گئے اس فیصلے سے صوبائی محکمہ صحت اور خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) کو آگاہ کردیا گیا ہے کہ نئے تعلیمی (دوہزارتیئس) میں نجی و سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں قبائلی اضلاع کے طلبہ کو زیادہ نشستیں دی جائیں۔ ظاہر ہے کہ جب میڈیکل کالجوں کی مجموعی نشستوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا گیا اور صرف قبائلی علاقوں کے لئے مختص نشستوں کی تعداد بڑھائی گئی ہے تو اِس سے لامحالہ بندوبستی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لئے دستیاب نشستوں کی تعداد کم ہو جائے گی۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ سرکاری میڈیکل کالجوں میں ہر سال نشستوں کی تعداد بڑھائی جاتی ہے لیکن اِن کالجوں میں سہولیات کا اضافہ نہیں کیا جاتا اور خیبرپختونخوا کے کئی سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں ایک ایک کمرے (لیکچر ہال) میں 200 سے 250 طلبہ بیک وقت تعلیم حاصل کرتے ہیں اور کسی معلم (لیکچرر) کے لئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ چالیس یا ساٹھ منٹ کی کلاس میں ہر طالب علم کو یکساں (مساوی) توجہ دے سکے۔ وفاقی حکومت نے تعلیمی سال (دوہزاراکیس بائیس) میں میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں نشستوں کی تعداد بڑھا کر 290کردی تھی جبکہ خیبر پختونخوا کے پبلک سیکٹر (سرکاری) میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں بلوچستان کے لئے نشستوں کی تعداد 29 سے بڑھا کر 113 کردی گئیں تھیں۔ نشستوں میں اضافے کا فیصلہ وفاقی کابینہ ڈویژن اسلام آباد کے توسط سے 2 مارچ 2017ء کو اُس وقت کے وزیر اعظم کی زیرصدارت ہوئے اجلاس میں کیا گیا تھا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام صوبوں میں تعلیم اور صحت کے اداروں میں قبائلی علاقوں کے طلبہ کے لئے کوٹہ دوگنا کیا جائے اور خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد (کم سے کم) دس سال تک اِسے برقرار رکھا جائے۔ اسی فیصلے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن اور پاکستان میڈیکل کمیشن کے خطوط کی تعمیل کرتے ہوئے خیبرمیڈیکل یونیورسٹی نے دو سال کے لئے ہدایات پر عمل درآمد کیا اور دوہزاراکیس اور دوہزاربائیس میں قبائلی طلبہ کے لئے دوگنی نشستیں مختص کی گئیں تاہم جب قبائلی علاقوں کے لئے زیادہ نشستیں مختص ہوئیں تو اِس سے بندوبستی علاقوں کے لئے مختص نشستوں کی تعداد کم ہو گئی جس سے بندوبستی علاقوں کے طلبہ میں بے چینی پیدا ہوئی اور وہ دوہزاراکیس اور دوہزاربائیس کی پالیسی کے مطابق داخلے کا مطالبہ کررہے تھے۔ اصولاً قبائلی علاقوں کے لئے الگ سے میڈیکل و ڈینٹل کالجز بنائی جانی چاہئیں اُور قبائلی اضلاع میں پرامن و پرفضا علاقے بھی ہیں جہاں ایسے میڈیکل و ڈینٹل کالجز بنائے جا سکتے ہیں خیبرپختونخوا کے بندوبستی علاقوں کے رہنے والے طلبہ کے لئے میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں دستیاب نشستوں میں کمی پر داخلے خواہشمند طلبہ اُور اُن کے والدین نے شدید احتجاج کیا اور سوشل میڈیا پر اِس احتجاج کی جھلکیاں آج بھی دیکھی جا سکتی ہیں لیکن یہاں احتجاج کرنے والی کم علمی یا لاعلمی سامنے آئی ہے کہ اُن کا ہر مطالبہ ’خیبر میڈیکل یونیورسٹی‘ سے ہوتا ہے جبکہ ’خیبرمیڈیکل یونیورسٹی‘ اپنے طور پر خیبرپختونخوا کے کسی بھی میڈیکل یا ڈینٹل کالج کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ یا کمی نہیں کر سکتی اور نہ ہی یہ اختیار صوبائی حکومت کے پاس ہے البتہ صوبائی اور خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے فیصلہ سازوں کو چاہئے کہ وہ خیبرپختونخوا کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے آواز اُٹھائیں۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان کے کسی بھی میڈیکل اور ڈینٹل کالج میں نشستیں مختص کرنا ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ کا استحقاق ہے جبکہ ’خیبر میڈیکل یونیورسٹی‘ صرف مختص کی گئیں نشستوں کی تعداد کے مطابق داخلے پُر (فراہم) کرتی ہے اور بنیادی طور پر ایک سہولت کار ہے جو کسی بھی تعلیمی سال کے داخلوں کو خوش اسلوبی سے مکمل کے لئے اپنے افرادی و تکنیکی وسائل اور تجربہ بروئے کار لاتی ہے۔ خیبر میڈیکل یونیورسٹی کی جانب سے اِس مؤقف کی بار ہا وضاحت سامنے آ چکی ہے یہ میڈیکل و ڈینٹل نشستوں کی تعداد میں صرف ایک بار کا اضافہ ہوگا کیونکہ یہ صوبوں کی درخواستوں پر اور طلبہ کے بہترین مفاد میں عارضی طور پر کیا گیا تھا۔ وضاحت میں یہ بھی کہا گیا کہ مستقبل میں سیٹوں کی تعداد بڑھانے کے خواہشمند کالجوں کو ’پی ایم سی‘ کے ذریعہ لازمی معائنے کا انتظام کرنا چاہئے تاکہ وہ اضافے کی اہلیت (معیار) پر پورا اُترتے ہوں۔ اِس میں مزید کہا گیا ہے کہ کسی بھی میڈیکل و ڈینٹل کالج میں نشستوں کی تعداد میں اضافے کو حسب قواعد ’معائنے‘ سے جوڑا جانا چاہئے۔ ایسی صورت میں موجودہ سرکاری و نجی میڈیکل یا ڈینٹل کالجوں کی نشستیں نہیں بڑھائی جا سکتیں البتہ سرکاری میڈیکل کالجوں میں شام و رات کے اضافی سیشن شروع کر کے ایک ایسے مسئلے کا حل پیش کیا جاسکتا ہے جو‘ ہر سال سینکڑوں طلبہ کے مستقبل سے متعلق ہے۔ پاکستان میڈیکل کمیشن کی دلیل یہ ہے کہ اگر وہ موجودہ انفراسٹرکچر والے کالجوں میں زیادہ سے زیادہ طلبہ کو داخلہ دیتا رہا تو اس سے میڈیکل تعلیم کا معیار خراب ہوجائے گا اُور یہ بات (مؤقف) سوفیصد درست ہے تاہم ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ کی جانب سے قواعد و ضوابط میں نرمی کرتے ہوئے جن میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کو سرسری (ناکافی) معائنے کے بعد مخصوص تعداد میں نشستوں کی اجازت دی جارہی ہے اُس سے تعلیم کا معیار کہیں زیادہ خراب ہوگا۔ ایک ایسی صورت جس میں سرکاری و نجی میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں طلبہ کی تعداد حسب سہولت اور تدریسی عملے کی تعداد کے مطابق اب بھی زیادہ ہے‘ وہاں زیادہ طلبہ کو ایڈجسٹ کرنا (کھپانا) مسئلے کا حل نہیں بلکہ مسئلے کی شدت میں اضافے کا باعث ہوگا۔