دنیا بھر میں اور خاص طور پر ایشیائی ممالک میں کورونا وبا (کوویڈ 19) کے دوبارہ پھیلانے کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ اِس وبا کی نئی قسم جو زیادہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے اِس وقت چین کو دبوچے ہوئے ہے جہاں دسمبر کے پہلے بیس روز کے دوران پچیس کروڑ افراد (پاکستانی کی کل آبادی سے زیادہ لوگ) اِس سے متاثر ہوئے اور اِس مرتبہ کورونا چین کے گنجان آباد شہر ہی نہیں بلکہ صاف ستھری آب و ہوا رکھنے والے دیہی علاقوں میں بھی پھیل چکی ہے۔ چین سے آنے والی اطلاعات کے مطابق کورونا وبا سے مرنے والوں کی تعداد اِس قدر زیادہ ہے کہ تدفین میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ چین کی طرح دیگر ممالک جیسا کہ جاپان اور جنوبی کوریا میں بھی کورونا انفیکشن بڑھ رہی ہے۔ ابتدائی طور پر چین کا ردعمل یہ تھا کہ سخت اقدامات نافذ کرکے اور مکمل لاک ڈاؤن نافذ کرکے سخت صفر کوویڈ پالیسی پر عمل کیا جائے لیکن اِن پابندیوں کے خلاف شہریوں نے احتجاج کیا جس کے بعد چین کی حکومت نے لاک ڈاؤن کی اپنی پالیسی میں نرمی کی اور شاید یہی نرمی کورونا وبا کے پھیلنے کا باعث بنی ہے۔ لاک ڈاؤن ختم ہونے اور ٹیسٹنگ سے متعلق پابندیوں کے بغیر سرحدپار سفر کرنے کی وجہ دیدی گئی ہے جس کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ یہ کورونا وائرس کی نئی قسم پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک میں بہت جلد نمودار ہو گی اور پھیل جائے گی۔ اطلاعات کے مطابق چین میں پھیلنے والے کورونا وائرس کی قسم (اسٹرین) انتہائی متعدی ہے اور اسے معمولی نہیں سمجھنا چاہئے چونکہ یہ دیگر اقسام کے مقابلے میں کسی ایک شخص سے دوسرے میں زیادہ تیزی (سرعت) سے منتقل ہوتا ہے اور اس کی انکیوبیشن مدت بھی کم ہے۔ زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے پہلے کورونا وبا کا سامنا کیا اور وہ زندہ رہے اُن کے بارے میں طبی ماہرین کا اتفاق تھا کہ وہ آئندہ کورونا وبا سے متاثر نہیں ہوں گے لیکن نئی قسم کے کورونا وائرس اُن لوگوں کو بھی متاثر کر رہا ہے جو اِس سے قبل کورونا وبا کا وار کامیابی سے برداشت کر چکے ہیں۔ یکساں تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ نئی قسم کا کورونا وائرس
اُن لوگوں کو بھی متاثر کر رہا ہے جنہوں نے کورونا ویکسین (ٹیکے) لگوائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کورونا وبا کی نئی قسم اور نئے حملے کے زیادہ تیزی سے (ممکنہ) پھیلاؤ پر قابو پانے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں اور اُن کا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں کورونا وبا پھوٹنے کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ اِس سے قبل ہی سماجی فاصلہ رکھنے اور دیگر متعلقہ احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا جائے۔ عمومی طور پر دیکھا جائے تو جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہ بات اطمینان کا باعث ہے کہ ملک کی 90 فیصد آبادی نے کورونا سے بچاؤ کا کم از کم ایک ٹیکہ لگوا رکھا ہے لیکن یہ ایک یا دو ٹیکے کافی نہیں کیونکہ کورونا کی نئی قسم زیادہ
خطرناک ہے۔ طبی ماہرین تجویز کر رہے ہیں کہ کورونا ویکسین لگوانے کی مہم دوبارہ شروع کی جائے اور زیادہ سے زیادہ لوگ بوسٹر شاٹس یا ویکسینیشن کورس مکمل کریں۔ اِس سلسلے میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان توجہ طلب ہے جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستان میں فی الوقت ’کورونا وبا پھیلنے کا خطرہ نہیں‘ ہے لیکن چین میں درپیش صورتحال تشویشناک ہے۔ جہاں عوام پاکستان کے مقابلے رضاکارانہ طور پر احتیاطی تدابیر بھی زیادہ اختیار کرتی تھے لیکن وہاں کورونا پھیلتا چلا گیا۔ این آئی ایچ کے اعداد و شمار کے مطابق‘ کورونا وبائی صورتحال پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ملک کے تقریباً سبھی حصوں میں کورونا مریض موجود ہیں اُور ہسپتالوں میں ایسے مریض بھی زیرعلاج ہیں جو زندگی اور موت جیسی کشمکش سے گزر رہے ہیں۔ کورونا مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے چین‘
جاپان اور امریکہ سرفہرست ہیں۔ جنوبی کوریا‘ فرانس اور پولینڈ میں بھی کورونا کیسز پھیل چکے ہیں۔ یہی نازک صورتحال برازیل اور میکسیکو کی بھی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ جب پاکستان سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک‘ جہاں وباؤں کے علاج معالجے اور اُن سے بچاؤ کے بارے میں شعور کی سطح نسبتاً زیادہ بلند ہے اور وہ ممالک کسی وبا کا مقابلہ کرنے کی زیادہ بہتر تیاری بھی رکھتے ہیں تو پاکستان کے فیصلہ سازوں کو غافل نہیں رہنا چاہئے بلکہ بروقت کورونا کے ممکنہ پھیلاؤ کو روکنے کے حوالے سے احتیاطی تدابیر (SOPs) نافذ کر کے معاملے کی نزاکت کا درست احساس کیا جائے۔ پاکستان میں کورونا کے حوالے سے ”نئی بیداری مہم“ کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو ایک بار پھر سماجی دوری اختیار کرنے‘ ماسک پہننے اور دن میں کئی مرتبہ اپنے منہ ہاتھ اچھی طرح دھونے کی یاد دلائی کروائی جا سکے۔ آئندہ دو ماہ (جنوری اور فروری 2023ء) شدید سردی کے مہینے ہیں جو کورونا وائرس کے پھیلنے کے لئے سازگار موسم فراہم کریں گے۔ اِس عرصے میں بیرون ملک بالخصوص چین‘ جاپان‘ جنوبی کوریا اُور امریکہ سے آنے والے مسافروں کی ہوائی اڈوں پر کوویڈ ٹیسٹنگ کو دوبارہ متعارف کروانا چاہئے جیسا کہ بھارت کے ہوائی اڈوں پر ہنگامی حالات نافذ کر کے ہر اندرون و بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کی سکریننگ ہو رہی ہے۔ قومی سطح پر ہنگامی حالات نافذ کر کے پاکستان کے طول و عرض میں کو کورونا ویکسی نیشن مراکز دوبارہ سے بحال کر دینے چاہئے اور گھر گھر ویکسی نیشن یا ویکسی نیشن کے گشتی مراکز اُن علاقوں میں بھیجے جانے چاہئیں جہاں حالیہ سیلاب سے متاثرین (بے گھر افراد) نے پناہ لے رکھی ہے۔ پاکستان کے اِس مؤقف کو دنیا نے تسلیم کیا تھا اور اِسے سراہا بھی تھا کہ کورونا وبا کا ممکنہ پھیلاؤ روکنے کے لئے ”لاک ڈاؤن“ اِس مسئلے کا پائیدار حل نہیں لیکن اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ کورونا وبا کے دوبارہ نمودار ہونے اور اِس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر ہی مؤثر اور کارآمد ہیں اور یہی پائیدارطریقہ بھی ہے۔