ٹاپ لائن سیکورٹیز کی جانب سے جاری کردہ ایک تحقیقی نوٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2022ء کے دوران پاکستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری سونے (gold) میں کی گئی ہے اور اِس سرمایہ کاری کا حجم دیگر سبھی شعبوں بلکہ کئی شعبوں میں مجموعی سرمایہ کاری سے بھی زیادہ ہے۔ ملک کی معاشی صورتحال کے باعث کاروبار کی بجائے سرمایہ کار سونے کو ترجیح دے رہے ہیں اور یہ رجحان سال 2023ء میں بھی حاوی رہنے کی اُمید ہے۔ بنیادی وجہ ٹیکس نظام اور حکومت کے اخراجات پر اعتماد کا فقدان بھی ہے‘ جس کی وجہ سے سرمایہ دار اپنی سالانہ آمدنی کے بڑے حصے کو چھپا کر رکھتے ہیں اور اِس کی سرمایہ کاری کسی ایسے شعبے میں کرتے ہیں جو کاروبار کی نسبت زیادہ محفوظ اور خفیہ ہو۔ سونے کے بعد سب سے زیادہ سرمایہ کاری امریکی ڈالرز میں کی گئی اور اِس شعبے کے سرمایہ کار سٹہ بازی میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ سال دوہزاربائیس کی تیسری بڑی سرمایہ ’نیا پاکستان سرٹیفکیٹس‘ میں کی گئی تاہم یہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کی جانب سے تھی۔ اِن تین اثاثوں سے حاصل ہونے والے منافع کی اوسط شرح قریب 20 فیصد رہی۔ آئندہ چند روز میں ختم ہونے والے عیسوی سال (دوہزاربائیس) کے دوران سونے کی فی تولہ قیمت میں مجموعی طور پر اکتالیس فیصد اضافہ ہوا جو ایک لاکھ آٹھ ہزار دوسو روپے سے بڑھ کر ایک لاکھ باون ہزار سات سو روپے ہوگئی۔ سال دوہزاراکیس میں سونے کی قیمت بڑھنے کی شرح میں گیارہ فیصد اضافہ ہوا تھا اور اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو سال دوہزاربائیس میں سونے کی قیمت میں اگر 41 فیصد اضافہ ہوا ہے تو یہ حقیقتاً غیرمعمولی ہے۔سونے کی قیمت پر اثرانداز ہونے والے 2 محرکات لائق توجہ ہیں۔ پہلا محرک عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمت کا بڑھنا ہے‘ جس کا پاکستان کی معاشی صورتحال سے کوئی تعلق نہیں البتہ دوسرا محرک مقامی ہے اور اِس کا تعلق روپے اور امریکی ڈالر کے درمیان تعلق سے ہے۔ سال دوہزاربائیس کے آخری چند ماہ کے دوران سٹیٹ بینک کی مداخلت یا عدم مداخلت کی وجہ سے ڈالر نہ صرف مہنگا ہوا بلکہ اِس کی دستیابی بھی کم رہی اور ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا کہ انٹربینک اور انٹرمارکیٹ ڈالر کے نرخوں سے زیادہ ادائیگی کے لئے خریدار تیار تھے لیکن اُنہیں ڈالر میسر نہیں تھے۔ ڈالر کی قیمت میں کمی بیشی کا فوری اور براہ راست اثر سونے کی قیمت پر مرتب ہوتا ہے اور اگرچہ حکومت ڈالر کی طرح سونے کی قیمت بھی مقرر کرتی ہے لیکن جس طرح ڈالر کی مقررہ نرخ سے زائد میں خریدوفروخت ہو رہی ہے بالکل اُسی طرح سونے کی مقررہ (اعلان کردہ) سرکاری قیمت سے زائد پر خریداری ہو رہی ہے۔ صرافہ بازار پشاور کے ایک ڈیلر کے بقول سال 2022ء کے دوران سونے کی قیمت میں اضافے کا سب سے بڑا محرک عالمی مارکیٹ تھی جہاں اِس کی قیمت میں معمولی ردوبدل کو بھی پاکستان میں فوری نافذ کر دیا جاتا ہے۔ صرافہ بازار کے لئے اکتوبر سے مارچ (چھ ماہ) کا عرصہ ’شادی سیزن‘ ہوتا ہے تاہم اِس مرتبہ سونے کی خریداری بہت ہی کم رہی جبکہ زیادہ تر صارفین نے اپنے پاس رکھے سونے سے نئے سیٹ بنوائے۔سال دوہزاربائیس کے دوران نیا پاکستان سرٹیفیکیٹس اور امریکی کرنسی دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے جبکہ سٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں سرمایہ کاری کا رجحان کم رہا کیونکہ حصص مارکیٹ پر ملک کی معاشی صورتحال کی وجہ سے غیریقینی کے سیاہ بادل چھائے رہے۔ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس (آر ڈی اے) کے تحت ڈالر پر مبنی نیا پاکستان سرٹیفکیٹس رکھنے والے سرمایہ کاروں نے بھی روپے کے لحاظ سے 36 فیصد کا فائدہ اٹھایا۔ اس کی بنیادی وجہ قومی کرنسی کی گرتی ہوئی قدر تھی۔ اسی طرح سال دوہزاربائیس میں ڈالر کے بلوں پر انحصار کرنے والوں میں اٹھائیس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ڈالر کا سرکاری بینک ریٹ دوہزاراکیس کے اختتام پر 177روپے سے بڑھ کر سال 2022ء کے اختتام پر 226 روپے ہیں جبکہ اوپن مارکیٹ میں فی ڈالر 236 سے 240 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ اِس غیریقینی پر مبنی معاشی صورتحال میں سرمایہ کاروں کی اکثریت نے سال دوہزاربائیس کے دوران ’فکسڈ آمدنی‘ کے منصوبوں میں سرمایہ کی۔ نتیجتًا تین ماہ کے ٹریژری بلز پر اوسط منافع چودہ فیصد ہے۔ اسی طرح مقامی منی مارکیٹ فنڈز نے بھی سال دوہزاربائیس کے دوران چودہ فیصد کی اوسط سے منافع حاصل کیا۔ سال دوہزاربائیس میں کرنٹ اکاؤنٹس کو چھوڑ کر بینک ڈیپازٹس اور حکومت کی جانب سے جاری کردہ سپیشل سیونگ سرٹیفکیٹس پر اوسط منافع گیارہ فیصد رہا۔ملک کی معاشی و سرمایہ کاری کی صورتحال میں جائیداد (پراپرٹی) کی خریدوفروخت کا شعبہ بھی کسی درجے سرمایہ کاروں کی توجہات کا مرکز رہا۔ یہ شعبہ ایک عرصے سے پاکستانیوں میں سرمایہ کاری کا مقبول ذریعہ ہے تاہم ریئل سٹیٹ کاروبار دوہزاربائیس میں میکرو اکنامک خدشات کی وجہ سے متاثر ہوا۔ سال دوہزاربائیس میں گھروں‘ پلاٹوں اور رہائشی املاک کی قیمتوں پر نظر رکھنے والے اشارئیوں میں بارہ سے چودہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی کمزور بیرونی کھاتوں کی صورتحال‘ بڑھتی ہوئی شرح سود اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی کی صورتحال کے باعث سرمایہ کاروں میں ایکوئٹیز اور بانڈز حاصل کرنے کے لئے پہلے جیسا جوش و خروش نہیں پایا جاتا۔ بڑھتی ہوئی شرح سود کی وجہ سے سرکاری بانڈز کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی۔ پاکستان انویسٹمنٹ بانڈ کے نام سے سرمایہ کاری کی سہولت پورے سال نظرانداز رہی اور یہی وجہ تھی کہ اِس میں سرمایہ کاری 2 فیصد منفی ریکارڈ کی گئی۔ دوسری طرف سٹاک مارکیٹ نے ایکوئٹی پر مبنی میوچل فنڈز کے ساتھ مل کر دوہزاربائیس کے دوران تقریباً تمام بڑے اثاثہ جات خاطرخواہ کارکردگی (ترقی) کا مظاہرہ نہیں کر سکے اور حصص مارکیٹ (KSE-100 Index) پورا سال نشیب و فراز کا شکار رہی جس میں سال دوہزاربائیس کے دوران مجموعی کمی 10فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔سال 2023ء میں پاکستان کی معیشت پر ’روس یوکرین جنگ کے اثرات‘ حاوی رہیں گے جس کی وجہ سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک بھی معاشی بحران سے گزر رہے ہیں۔