سال 2022ء پاکستان کی معیشت کے لئے کئی محاذوں پر مشکل سال رہا۔ حکومت میں تبدیلی دیکھی گئی تو سال کے اختتام پر دیوالیہ (ڈیفالٹ) کی باتیں ہو رہی ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام میں تاخیر اور پاکستانی کرنسی میں اتار چڑھاؤ چند موضوعات ہیں‘ جنہوں نے عیسوی سال کے آخری دنوں میں ’معاشی بدحالی‘ پر توجہات مرکوز کر رکھی ہیں۔ ان سبھی پیشرفتوں کے درمیان مہنگائی (افراط زر) کی شرح ہر دن پہلے سے زیادہ بلند ہو رہی ہے جبکہ میکرو اکنامک اشاریئے کمزور ہیں اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا لیکن اُس نے انٹرسٹ ریٹ میں اضافے کے ذریعے معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کی ہے لیکن یہ سہارا بھی خاطرخواہ کام کرتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اختتام پذیر ہونے والے عیسوی سال میں انٹرسٹ ریٹ میں اتار چڑھاؤ دیکھا گیا جو 1998-99ء کے بعد سے بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ مرکزی بینک نے بارہ ماہ کی مدت میں مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کے آٹھ اجلاس منعقد کئے جن میں سے ایک ہنگامی اجلاس اپریل (دوہزار بائیس) میں منعقد ہوا تھا۔ خاص بات یہ ہے کہ ایسے ہنگامی اجلاس شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں لیکن اِن کا انعقاد معاشی صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ سال کے شروع میں شرح 9.75 فیصد تھی اور تب بھی کاروباری و صنعتی طبقات اِس پر تنقید کر رہے تھے۔ چوبیس جنوری کو منعقد ہونے والے سال میں انٹرسٹ ریٹ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ انٹرسٹ ریٹ میں جوں کی توں صورتحال آٹھ مارچ دوہزارتیئس کو منعقد ہونے والی ایم پی سی کی دوسری میٹنگ تک بڑھ گئی۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق یہ فیصلہ ایم پی سی کے اس نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے کہ فروری دوہزاربائیس کے آخر میں اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ایندھن کی قیمتوں اور بجلی کے نرخوں میں کمی کے اعلان کے بعد مہنگائی میں کچھ کمی آئی تھی تاہم سٹیٹ بینک نے روس یوکرین تنازعہ کی وجہ سے عالمی توانائی اور خوراک کی قیمتوں کے مستقبل کو ”غیر یقینی صورتحال“ سے تعبیر کرتے ہوئے خطرہ قرار دیا تھا۔ اس کے بعد عمران خان نے عوام کے لئے ریلیف پیکیج کے تحت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 10روپے فی لیٹر کمی اور بجلی کے نرخوں میں 5 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کیا۔ اُس وقت عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں سال کی بلند ترین سطح پر پہنچنے والی تھیں۔ اس کے بعد اپریل دوہزاربائیس کے اوائل میں سیاسی منظرنامے پر ”عدم اعتماد کے ووٹ“ کی باتیں گردش کرنے لگیں تو اسمبلی تحلیل کر دی گئی لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسے ’غیر قانونی اقدام‘ قرار دیا اور قومی اسمبلی بحال کر کے عدم اعتماد کے ووٹ کی راہ ہموار کی گئی جس کے نتیجے میں تحریک انصاف حکومت ختم ہوئی۔ گیارہ اپریل دوہزاربائیس کو شہباز شریف کی قیادت میں حکومت قائم ہوئی تو بجلی اور ایندھن کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ کیا گیا جس سے مہنگائی بڑھی۔تین مئی کو حکومت پاکستان نے گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر کے عہدے کی مدت میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور ڈپٹی گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید کو قائم مقام گورنر مقرر کر دیا گیا۔ تیئس مئی کو اپنے اجلاس میں سٹیٹ بینک نے بیرونی دباؤ میں اضافے اور افراط زر کے نقطہئ نظر کی وجہ سے انٹرسٹ ریٹ میں ڈیڑھ سو بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا اور اِسے 13.75فیصد کردیا تھا۔ امید پیدا ہوئی کہ اِس اقدام سے مہنگائی میں اضافہ رک جائے گا اور بیرونی استحکام کو لاحق خطرات پر قابو پانے کے لئے اعتدال پسند طلب کو زیادہ پائیدار رفتار تک لے جانے میں مدد ملے گی لیکن یہ اُمید بھی پوری نہ ہو سکی۔ سات جولائی کو ہونے والے اگلے اجلاس میں سٹیٹ بینک نے انٹرسٹ ریٹ کو 125بیسس پوائنٹس بڑھا کر 15فیصد کردیا جو نومبر 2008ء کے بعد سے اب تک کی بلند ترین سطح ہے۔ اس اضافے کا مقصد غیر معمولی چیلنجنگ اور غیر یقینی عالمی ماحول کے درمیان معاشی استحکام یقینی بنانا تھا۔ سٹیٹ بینک نے امید ظاہر کی کہ اس سے مہنگائی میں کمی سے متعلق توقعات کے بارے میں ابہام دور کیا جا سکے گا اور کئی سالوں سے بڑھتی ہوئی افراط زر اور ریکارڈ درآمدات کے تناظر میں پاکستانی روپے کو سہارا ملے گا۔ واضح رہے کہ جون 2022ء میں افراط زر کی شرح بیس فیصد سے تجاوز کر گئی تھی اور جولائی میں یہ چوبیس اعشاریہ نو فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ اگست دوہزاربائیس میں مہنگائی 27.3فیصد جیسی بلند سطح پر پہنچ گئی۔ اُنیس اگست کو حکومت پاکستان نے جمیل احمد کو گورنر سٹیٹ بینک مقرر کیا جنہوں نے ’ایم پی سی‘ کا اجلاس بلایا اور بائیس اگست کو ہوئے اجلاس میں انٹرسٹ ریٹ کو پندرہ فیصد برقرار رکھنے کا اعلان کیا اور محسوس کیا کہ اس مرحلے پر یہی دانشمندانہ ہوگا کہ انٹرسٹ ریٹ میں ردوبدل نہ کی جائے۔ سٹیٹ بینک نے دس اکتوبر کے اپنے اجلاس میں ایک بار پھر انٹرسٹ ریٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ موجودہ مانیٹری پالیسی کا مؤقف مہنگائی کو سنبھالنے اور تاریخ کے بدترین سیلاب کے تناظر میں شرح نمو کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے اور اِس سے معاشی توازن قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ مارکیٹ توقعات کے برعکس اسٹیٹ بینک نے پچیس نومبر کو پالیسی ریٹ میں 100بیسز پوائنٹس کا اضافہ کر کے اِسے سولہ فیصد کر دیا۔ یہ 1998-99ء کے بعد سے پاکستان میں انٹرسٹ ریٹ کی بلند ترین سطح ہے۔ مرکزی بینک کے مطابق افراط زر کا دباؤ توقع سے زیادہ مضبوط اور مستقل ثابت ہوا ہے۔ اس فیصلے کا مقصد اِس ہدف کے حصول کو یقینی بنانا تھا کہ مہنگائی میں مزید اضافہ نہ ہو اور مالی استحکام کو لاحق خطرات پر قابو پایا جائے‘ اس طرح زیادہ پائیدار بنیادوں پر شرح نمو میں بہتری کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ سٹیٹ بینک کی سوچ سے عیاں ہے کہ سال 2023ء کے دوران پالیسی ریٹ (شرح سود) میں مزید ایک سو سے دو سو بیسس پوائنٹس کا اضافہ ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مہنگائی میں کسی طور کمی نہیں آ رہی لیکن اگر 2023ء میں انٹرسٹ ریٹ جوں کا توں برقرار بھی رہتا ہے تب بھی یہ معیشت میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہا اور نہ ہی بیرونی سرمایہ کاری کے لئے موافق مطابقت رکھتا ہے۔ سٹیٹ بینک نے گزشتہ چند اجلاسوں میں مہنگائی (افراط زر) پر غور ہوا ہے لیکن صرف مہنگائی ہی نہیں بلکہ ملک کے دیگر معاشی اشاریئے بھی ہر دن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ معاشی نمو توقعات سے کم رہنے کی توقع ہے کیونکہ فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ معیشت میں عملی طور پر کشش نہیں رہی اور ایسی صورت میں شرح سود میں اضافہ معاشی سرگرمیوں اور کاروباری طلب کو مزید کم کر دے گا جو پہلے پہلے ہی سست روی کا شکار ہے۔ چھبیس دسمبر دوہزار بائیس کے روز ہوئے اعلان کے مطابق انٹرسٹ ریٹ سے متعلق سٹیٹ بینک کے آئندہ اجلاس جنوری اور جون دوہزارتیئس میں ہوں گے۔