ترقیاتی ترجیحات و ضروریات: بجٹ 2023ء
خیبر پختونخوا حکومت نے انتظامی محکموں کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئندہ مالی سال 2023-24ء کیلئے اپنے وسائل سے مجموعی طور پر 124 ارب روپے کا ترقیاتی پروگرام تیار کریں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ (پی اینڈ ڈی) ڈیپارٹمنٹ نے انتظامی محکموں کو نئے مالی سال کیلئے مجوزہ سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) کی تیاری اور اِس کیلئے مالی وسائل مختص فنڈز کی تفصیلات ارسال کی ہیں‘ جسکے مطابق صوبائی حکومت مختلف وجوہات کی بنا پر نقل مکانی کرنیوالوں کی آباد کاری اور اُن کی معیشت و معاشرت بحال کرنے کیلئے ’ایک سو ارب روپے‘ جبکہ قبائلی اضلاع میں تعمیروترقی کیلئے چوبیس ارب روپے مختص کرنے کا ارادہ رکھتی ہے نئے مالی سال میں مختلف شعبوں (ملٹی سیکٹر) کی ترقی کیلئے اٹھار ارب پینسٹھ کروڑ روپے‘ سڑکوں کی تعمیر کیلئے پندرہ ارب چھیانوے کروڑ روپے‘ صحت کیلئے گیارہ ارب اَسی کروڑ روپے‘ سیاحت‘ کھیل و ثقافت کیلئے سات ارب اکیانوے کروڑ روپے‘ پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کیلئے سات ارب پچیس کروڑ روپے‘ آبپاشی کیلئے سات ارب اُنیس کروڑ روپے‘ شہری ترقی کیلئے پانچ ارب اٹھانوے کروڑ روپے‘ زراعت اور لائیو سٹاک کیلئے تین ارب ستتر کروڑ روپے‘ اعلیٰ تعلیم کیلئے تین ارب اکتہر کروڑ روپے‘ جنگلات کیلئے دو ارب پندرہ کروڑ روپے‘ دیگر بحالی و آبادکاری کے منصوبوں کیلئے ایک ارب چوون کروڑ روپے‘ توانائی اور بجلی کی پیداوار کیلئے ایک ارب اڑتیس کروڑ روپے‘ بلدیات کیلئے ایک ارب بیالیس کروڑ روپے‘ صنعتوں کیلئے ایک ارب پچیس کروڑ روپے‘ داخلہ امور (سکیورٹی) کیلئے ایک ارب چودہ کروڑ روپے‘ قانون و انصاف کیلئے ایک ارب بارہ کروڑ روپے‘ تعلیم کیلئے ترانوے کروڑ اَسی لاکھ روپے‘ سائنس و ٹیکنالوجی کیلئے بیاسی کروڑ ستر لاکھ روپے‘ آبادی کی فلاح و بہبود کیلئے انچاس کروڑ اَسی لاکھ روپے‘ اوقاف‘ مذہبی اور اقلیتی امور کیلئے اڑتالیس کروڑ ساٹھ لاکھ روپے‘ بورڈ آف ریونیو کیلئے پینتالیس کروڑ ستر لاکھ روپے‘ ہاؤسنگ کیلئے چھتیس کروڑ ساٹھ لاکھ روپے‘ سماجی بہبود کیلئے تینتیس کروڑ چالیس لاکھ روپے‘ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کیلئے پچیس کروڑ ساٹھ لاکھ روپے‘ جبکہ آباد اضلاع میں مقامی حکومتوں کیلئے بیس ارب روپے الگ سے بھی مختص کئے جائیں گے‘ یادرہے کہ خیبر پختونخوا کی معیشت پاکستان کی تیسری بڑی معیشت ہے جسکا قومی پیداوار میں حصہ ساڑھے دس فیصد لیکن پاکستان کی آبادی میں خیبرپختونخوا کی آبادی قریب بارہ فیصد ہے خیبرپختونخوا کی معیشت کا دارومدار زراعت‘ مال مویشیوں‘ سیاحت اور جنگلات پر ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں معدنیات کے ذخائر بے ترتیب پڑے ہیں اور اگرچہ کان کنی کے شعبے سے بیس فیصد آمدنی حاصل ہو رہی ہے لیکن اگر صرف کان کنی ہی کے شعبے کو ترقی دی جائے تو اِس سے صوبے کی قسمت بدل سکتی ہے‘ اگرچہ صوبائی بجٹ کے مجوزہ تخمینہ جات میں سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں زراعت و سیاحت کی بحالی کیلئے خصوصی رقم مختص نہیں لیکن آئندہ چند ماہ میں یقینا بجٹ کی حتمی شکل اختیار کرتے ہوئے اِن دونوں شعبوں کیلئے خطیر رقم مختص کی جائیگی سیاحت‘ زراعت‘ مال مویشی اور کان کنی جیسے شعبوں پر توجہ دینے سے صوبائی آمدنی میں کئی گنا اضافہ ممکن ہے۔ خیبرپختونخوا کا سب سے زیادہ نظرانداز شعبہ ’زراعت‘ کا ہے اور اِس کی نقدآور فصلوں میں گندم‘ مکئی‘ تمباکو‘ چاول‘ چقندر کے علاؤہ صوبے میں مختلف اقسام کے پھل اگائے جاتے ہیں۔ زرعی اجناس کی برآمدات بڑھانے کیلئے ’ویلیو ایڈیڈ سروسز‘ کے شعبے میں سرمایہ کاری کیلئے نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری مفید رہے گی اگر صوبائی حکومت صرف اور صرف نجی شعبے کو فائدہ پہنچانے کیلئے سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری بنام شراکت داری کر سکتی ہے تو سب سے زیادہ اور سب سے پہلا حق زراعت کا بنتا ہے کہ اِسے نجی شعبے کی شراکت سے ترقی دی جائے خیبرپختونخوا کی صنعتی بستیوں کے قیام سے روزگار میں اضافہ اپنی جگہ لیکن اِس کے باوجود بھی سب سے زیادہ روزگار زرعی شعبہ ہی فراہم کر رہا ہے‘ جو نظرانداز ہے‘ خیبرپختونخوا میں ہنرمندی کی کمی نہیں‘ چھوٹے ہتھیار بنانے میں خصوصی مہارت رکھنے والوں کی صلاحیتوں سے بھی فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے‘ پاکستان میں ماربل کی پیداوار کا 78 فیصد خیبرپختونخوا سے حاصل ہوتا ہے لیکن یہاں ماربل کی اکثریتی صنعت توانائی بحران سے لیکر تربیت یافتہ افرادی قوت اور سائنسی بنیادوں پر پتھر کی کٹائی سے ناآشنا ہے؛ صوبائی معیشت کی بہتری کیلئے قرض اگرچہ آسان اور فوری حل ہیں لیکن اِس سے حاصل ہونے والی ترقی کے اہداف پائیدار نہیں ہوتے‘صورتحال کا ایک روشن پہلو بھی ہے‘ وہ یہ کہ خیبرپختونخوا میں پن بجلی (ہائیڈرو) اور شمسی توانائی (سولر پاور) سمیت بجلی کے ترسیلی نظام کی بہتری کے 42 منصوبوں پر کام جاری ہے۔ پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (PEDO) نے اب تک کئی چھوٹے پن بجلی کے منصوبے مکمل کئے ہیں جبکہ زیادہ تر جاری منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں‘ آٹھ ہزار سرکاری تعلیمی اداروں‘ ایک سو ستاسی بیسک ہیلتھ یونٹس کو شمسی توانائی سے روشن کرنے سے صوبائی حکومت کے بجلی بلوں کی مد میں سالانہ کروڑوں روپے کی بچت ہو رہی ہے‘ دوسرے مرحلے میں بجلی سے محروم علاقوں میں 291 منی مائیکرو ہائیڈرو اسٹیشنز کی تعمیر جاری ہے‘ صرف بجلی کے پیداواری منصوبوں سے خیبرپختونخوا کو 32 ارب روپے کی بچت ہو چکی ہے‘ بجلی کے قابل ذکر 6 بڑے منصوبوں میں دارالخاور پاور پراجیکٹ سوات چھتیس اعشاریہ چھ میگاواٹ)‘ پیہور پاور پراجیکٹ (صوابی اٹھارہ میگاواٹ) مچھائی پاور پراجیکٹ (مردان چار میگاواٹ)‘ مالاکنڈ تھری پراجیکٹ (اکیاسی میگاواٹ)‘ رانولیا (سترہ میگاواٹ) اور چترال میں پانچ میگاواٹ کا ریشون پاور پراجیکٹ شامل ہے جو حالیہ سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔