الیکشن او ر مساوات 

دستور پاکستان میں واضح طورپر کہاگیاہے کہ ملک کے تمام شہری برابر ہیں اور کسی کو بھی کسی دوسرے پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ ہی کوئی ایک شخض دوسرے سے زیادہ حقو ق کاحامل ہوگا ساتھ ہی یہ بھی واضح طورپر کہاگیاہے کہ دستور کی خلاف ورزی سنگین غداری کے زمرے میں آئے گی اور غداری کی سزا بھی بالکل واضح ہے مگر بدقسمتی سے اگر مساوا ت آدمیت کی بات کی جائے تو اس معاملہ میں ہم دستور کے نفاذ کے ساتھ ہی بدترین قسم کی صورت حال سے دوچار چلے آرہے ہیں زندگی کے تمام شعبوں میں عدم مساوات کا دوردورہ ہے بات اب وی آئی پی کلچر سے نکل کر وی وی آئی پی کلچرکی طرف پہنچ چکی ہے دوفیصد اشرافیہ اٹھانوے فیصد اکثریت کی قسمت کے فیصلوں میں مصروف ہے قانون ان کے سامنے موم کی ناک کی طرح ہے یہ جس طرف چاہیں اپنے مفاد کے لئے آئین وقانون کو موڑ لیتے ہیں جتنے بھی قوانین بنتے ہیں ا ن میں سب سے زیادہ دوفیصد اقلیتی اشرافیہ کے مفادات کو مقدم رکھاجاتاہے اس کی ایک بڑی مثال ہمارا انتخابی نظام بھی ہے جو صرف اورصرف آج پیشہ ور امیدواروں جن کو آج کل معزز نام یعنی Electablesسے جاناجانے لگاہے کو کھپانے اور مستفید کرانے کیلئے تشکیل دیاگیاہے حیرت کی بات ہے کہ امیدوار جیل سے تو الیکشن لڑ سکتاہے مگر جیل میں بند عام لوگوں کو ووٹ کی اجازت بھی مشکل سے ملتی ہے ایک ووٹر صرف ایک امیدوا ر کو ووٹ ڈال سکتاہے مگر امیدوار ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑ سکتاہے پشاور سے تعلق رکھنے والاووٹر کسی اور شہر میں ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم ہے مگر کسی اورشہر تو ایک طرف دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے امیدوارہمارے صوبے میں الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں سوال یہ پیداہوتاہے کہ پھر مساوات کااصول اور ضمانت کہاں گئی اور ا سکے بعد انتخابی نظام کے حوالہ سے سوال کرنا تو لازم ہوجاتاہے پاکستان کی فیڈرل شریعت کورٹ میں 1988ء کے انتخابات کے بعد بہت سی درخواستیں موجودہ نظام انتخابات اور انتخابی قوانین کو کالعدم قرار دینے کے لئے دائر کی گئیں اور ان درخواستوں کے دلائل کی بنیاد پر فیڈرل شریعت کورٹ نے بھی موجودہ نظام انتخاب کو قرآن و سنت کے
 اصولوں کے خلاف قرار دیا تھا۔ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران سب سے بڑی دلیل یہی پیش کی گئی تھی کہ موجودہ نظام انتخاب میں انتخابی مہم ایک میلے یا سرکس کے انداز میں چلائی جاتی ہے۔ ہر امیدوار کی اولین ترجیح اپنی ذات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا اور اپنے حریف امیدوار کی کردار کشی ہوتی ہے اور اسی وجہ سے باہمی نفرت وعنادمیں اضافہ ہوتاجاتاہے بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں انتخابی نظام کے یہ سقم دور کرنے میں کبھی بھی سنجید ہ نہیں رہیں خاص طورپر ایک سے زائد نشستوں پر الیکشن لڑنے کے حوالہ سے تو ہمیشہ خاموشی اختیار کی جاتی رہی ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت ہی اسمبلی میں ہرصورت پہنچنے کے لئے اکثر ایک سے زائد نشستوں پر الیکشن لڑنے کے لئے میدان میں آتی ہے مگر جب گذشتہ ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے چیئر مین نے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے درجن بھر نشستوں پر الیکشن لڑنے کااعلان کیا تو پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں کی چیخیں نکل گئیں اور تب ان کو یاد آیا کہ یہ سراسر زیادتی ہے بعدازاں وہ جتنی نشستیں خالی کریں گے ان پر الیکشن کے لئے کروڑں کے اضافی اخراجات ہونگے حالانکہ یہ بحث بہت پہلے ہونی چاہئے تھی اور مل کر اس کاراستہ روکاجاناچاہئے تھا بہرحال دیر آید درست آید کے مصداق اب یہ راستہ بندکرنے کے لئے کوششیں شروع کردی گئی ہیں نومبر میں اپوزیشن رکن نے قومی اسمبلی میں پرائیویٹ ممبر بل پیش کیا جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بیک وقت دو سے زائد نشستوں پر الیکشن لڑنے پر پابندی عائد کی جائے  یہ بل جماعت اسلامی (جے آئی) کے رکن مولانا عبد ا لاکبر چترالی کی طرف سے پیش کیاگیا جس میں کہاگیاہے کہ آئین کے آرٹیکل 223کے تحت
 کوئی بھی شخض ایک سے زائد نشستوں پر الیکشن لڑ سکتاہے اس پر پابندی ہونی چاہئے وفاقی حکومت کی جانب سے ترمیمی بل کی حمایت کے بعد قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف نے بل کو متعلقہ ہاؤس کمیٹی کو بھجوا دیا ہے۔ترمیمی بل کے مطابق ’شق نمبر ایک کے تحت کوئی بھی شخص بیک وقت ایک یا دو اسمبلیوں میں زیادہ سے زیا دہ دو نشستوں کے لئے امیدوار بن سکتا ہے‘مجوزہ ترمیمی بل میں تجویز پیش کی گئی کہ اگر امیدوار دونوں نشستوں میں جیت جائے تو اس صورتحال میں امیدوارکو تیس دنوں کے اندر ایک نشست خالی کرنی ہوگی۔بل کی ترمیم کے دوران مولانا عبدالاکبر چترالی نے بحث کرتے ہوئے کہا پاکستان کا آئین شہریوں کو اختیار دیتا ہے کہ وہ متعدد نشستوں پر الیکشن لڑ سکتے ہیں جبکہ انتخابات میں جیتنے کے بعد امیدوار کو ایک نشست خالی کرنی ہوگی۔جماعت اسلامی کے رکن نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق ایک حلقے میں الیکشن کروانے کے لئے الیکشن کمیشن کو دو کروڑ سات لاکھ  روپے خرچ کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ کچھ برس سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے اگلے قومی اور صوبائی انتخابات کے لئے چھیالیس ارب روپے  درکار ہوں گے، اگر یہ رقم قومی اسمبلی 272حلقوں میں تقسیم کرلی جائے تو ایک حلقے کے اخراجات دس کروڑ چھ لاکھ روپے  ہوں گے۔مولانا چترالی نے کہا کہ یہ ناقابل تصور ہے کہ اگر کوئی امیدوار دس نشستوں سے بھی کامیابی حاصل کرتاہے تو آخر میں  اس کو صرف ایک نشست حاصل ہوتی ہے۔مولانا عبدالاکبر چترالی کا کہنا تھا کہ اس طرح ملک اور قومی خزانے کا بہت نقصان ہوگا اور ووٹرز کے ساتھ بھی ناانصافی ہوگی یوں جماعت اسلامی نے ایک کوشش کی ہے اور فی الوقت بغض پی ٹی آئی میں حکومتی جماعتوں نے بھی بل کی حمایت تو کردی ہے مگر اب دیکھنایہ ہے کہ اس حوالہ سے عملی قانون سازی کب ہوتی ہے وقت آگیاہے کہ امیدواروں اور ووٹروں کو ایک جیسے حقوق دیئے جائیں دونوں میں مساوات لائی جانی ضروری ہے کسی بھی امیدوار کو زیادہ سے زیادہ دونشستوں پر الیکشن کی اجازت ہونی چاہئے اس سے زیادہ کی عیاشی کاسلسلہ اب ختم کرناناگزیرہوچکا۔