اور اب کے ایک ایسے سرد موسم میں ہم ایک اور سال کے پہلے دن کا استقبال کر رہے ہیں جس نے یار لوگوں کو گرم کمروں اور گھروں سے نکلنے سے پہلے سو مرتبہ سوچنے پر مجبور کر رکھا ہے،، مجھے خوب یاد ہے کہ گزشتہ سال کے پہلے دن کی آمد تک سردی خاصی مہربان تھی۔ دور پہاڑوں کی چوٹیوں پر تو کہیں کہیں برف پڑی نظر آ رہی تھی مگر جن شہروں اور علاقوں میں برف پڑتی ہے وہاں جنوری کے پہلے دن تک برف کا دور تک نام و نشاں نہ تھا بلکہ برف تو ایک رہی موسم کی پہلی بارش کے لئے ہر لب پر دعائیں تھیں کیونکہ خشک سردی نے چہروں سے تازگی چھین لی تھی، یار لوگوں کو بارش اور برف باری کا انتظار تھا، موسم ہماری خواہشات کی بجائے اپنے ٹائم ٹیبل کو فالو کرتے ہیں، کل اگر برف باری نہ ہونے کی شکایت سنائی دے رہی تھی تو اس زمستان میں اسی برف سے پناہ مانگی جارہی ہے، اب کے بہت سے علاقوں میں برفانی طوفان نے بہت بگاڑ پیدا کر دیا ہے امریکہ میں جس طور اور جس شدت سے برفانی طوفان آئے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے اس کے بارے میں شنید ہے کہ ایسا شدید سرد موسم کم و بیش چالیس بیالیس برس بعد آیا ہے اور اس بار اس موسم کے ہاتھوں بہت سی انسانی زندگیاں بھی کام آئی ہیں، امریکہ میں ”ہوم لیس“ لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، اگر چہ ریاست کی طرف سے ان کو موسم کی شدتوں سے بچانے کے لئے شیلٹرز اور پناہ گاہوں کا انتظام کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی کہیں کہیں ایسے لوگ نظر آ جاتے ہیں، ایک بار معروف پینٹنگ آرٹسٹ تسنیم شہزاد کے ساتھ نیویارک میں سب وے میں بیٹھ کر ہم آخری سٹیشن تک گئے اور جنوری کے مہینے کے اوائل میں بحر اوقیانوس کے ساحل پر چہل قدمی کر رہے تھے اس دن صبح مطلع صاف تھا اور خوب چمکیلی دھوپ تھی لیکن جب ہم ”بیچ“ پر پہنچے تو موسم بہت بدل چکا تھا اور گہرے بادلوں نے دن میں شام کا سماں پیدا کر لیا تھا یہاں تو ٹھیک تھا کہ موسم خاصا رومینٹک سا ہو گیا تھا مگر پھر جو بحر اوقیانوس کے ساحل پر برفانی ہوا چلی اور بادلوں نے بھی گھبرا کے چھما چجم برسنا شروع کردیا،ساحل پر کچھ سائباں بھی بنے ہوئے تھے تھے ہم نے بھاگ کرایک سائبان میں پناہ لی، اب سردی بڑھ چکی
تھی اور وہاں رکنا بھی ممکن نہ تھا اگرچہ یہ سائباں بارش سے تو بچاتے ہیں لیکن ہوا سے نہیں کیونکہ یہ چاروں اور سے کھلے ہو تے ہیں اور محض ڈیڑھ دو فٹ کی چھوٹی سی دیواریں تھیں، لیکن اس سائیبان کے ایک کونے میں ایک معمر خاتون خود کو سمٹائے ہوئے بیٹھی تھی اس کے پاس اس کا تھوڑا سا سامان بھی پڑا ہوا تھا۔ ہم وہاں نہیں رک سکتے تھے کہ سردی برداشت سے باہر ہو گئی تھی لیکن وہ خاتون نہ جانے کب سے اس سائباں کے ایک کونے میں سمٹی موسموں کی شدتوں کا مقابلہ کر رہی تھی۔ اس رات دیر تک میں اس کے بارے میں سوچتا رہا جانے کس گھرانے میں پیدا ہوئی ہو گی کس طرح کا بچپن لڑکپن اور جوانی گزاری ہو گی اور نہ جانے اس کے ساتھ پھر ایسا کیا ہوا کہ اب بے یارو مددگار چاروں طرف سے کھلے سائبان کے ایک کونے کو اپنی کائنات سمجھ کر اپنی آنکھیں بند ہونے کا انتظار کر رہی ہے یا پھر اس امید کے سہارے زندہ ہے کہ شاید اسے چھوڑ کے جانے والے کبھی لوٹ آئیں۔ میں تو پھر کبھی اس ساحل کی طرف نہیں گیا لیکن آج مجھے وہ خاتون اس لئے یاد آئی کہ ایسے ہی کتنے ”ہوم لیس“ اس زمستان کا مقابلہ نہ کر سکے اور ان کی تعداد اب تو تین ہندسوں تک پہنچ چکی ہے، نیویارک سے کئی دوستوں کے پیغامات موصو ل ہوئے کہ یہاں تو قلفی جمی ہوئے ہے، ادھر کولوراڈو میں تو یوں بھی سردی کا موسم خاصا شدید ہوتا ہے اور درجہ حرارت کبھی کبھی منفی پچیس تک جا پہنچتا ہے لیکن اب کے تو شروع ہی میں منفی چھتیس سے ہوا، اور ایک دن تو افراز نے اپنی تصویر شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ ”منفی چھتیس میں گھر کے بیک یارڈ میں“
فون پر بات کی تو کہنے لگے آ‘ج خلاف توقع بجلی چلی گئی، تو میں یہ دیکھنے گھر سے باہر آ کر دیکھنا چاہتا تھا کہ کہیں یہ صرف میرے گھر کا مسئلہ نہ ہو
کیونکہ پچھلے دو تین دن سے ہیٹ ہائی لیول پرمسلسل اون تھی لیکن گیرج سمیت سارے بجلی سے کھلنے بند ہونے والے دروازے (خودکار) بند تھے مجبورا بیسمنٹ سے بیک یارڈ کی طرف کھلنے والے دروازے سے باہر آیا تو خودکو اگر چہ گرم کپڑوں میں لپیٹا ہوا تھا مگر ٹھٹھر کر رہ گیا وہ تو اچھا ہوا کہ سامنے ایک گھر کو دیکھا جہاں گیرج کا دروازہ کھلا تھا ایک لمحہ کو خیال آیا کہ شاید لائٹ صرف میری ہی نہیں ہے مگر مڑ کر اپنے گھر کو دیکھا تو سب لائٹس آن تھیں تو بھاگ کر گھر آگیا، معلوم ہوا کہ چند منٹس کے لئے بجلی غائب ہوئی تھی۔ میں نے کہا بیٹا ہمارے ہاں ایسے بہت سے علاقے ہیں جہاں بس اتنی ہی دیر کے لئے بجلی،، آتی ہے۔ ایسی ہی کئی فٹ پڑی ہوئی برف میں ایک یادگار رات میں نے سریکیوز (اپ سٹیٹ نیویارک) میں شاعر و افسانہ نگار ڈاکٹر عامر بیگ کے فارم ہاؤس میں گزاری تھی جہاں رات کا پہلا حصہ میں نے عامر بیگ اور عتیق احمد صدیقی نے بڑی سکرین پر کئی بار فلم صاحب بی بی غلام کا معروف کورس گانا ”ساقیا آج مجھے نیند نہیں آئے گی،سنا ہے تری محفل میں رتجگا ہے“ پوسٹ ڈنر آئیٹم کے طور پر انجوائے کیا تھا، میں نے کئی سال جاڑوں کی رت امریکہ میں گزاری ہے لیکن اب کے میں نے پشاور میں نیلا دسمبر گزارا ہے اور کچھ دل ہی جانتا ہے کہ اس کڑاکے کی سردی میں کیسے گزارا ہے، کبھی بجلی نہیں کبھی گیس نہیں اور کبھی دونوں روٹھ گئے،اور ایسے میں شہر کی مل بیٹھنے کی کئی ادبی تنظیمیں بھی فعال ہیں سو وہاں بھی حاضری ضروری ہے اور میں تو اکثر کہتا ہو کہ یار لوگوں کو موسموں سے لاکھ شکایتیں ہوں ان کی آنکھیں تو موسموں کی طرف ہی لگی رہتی ہیں، اور موسم کے ٹائم ٹیبل میں ذرا بدلاؤ آتا ہے تو یار لوگوں کے چہروں پر کشیدگی بڑھنے لگتی ہے، اور گفتگو میں موسم کے حوالے سے لہجے میں ایک شکایت سی پیدا ہونے لگتی ہے مگر قلم قبیلہ اس لحاظ سے بہت بہتر ہے اور کم ازکم شعرا کو یہ سہولت تو حاصل ہوتی ہے کہ وہ جب چاہیں آنکھیں بند کر کے خود کو اپنے ہی بنائے ہوئے ”یوٹوپیا“ میں منتقل کر دیں گویا وہ بیک وقت دو دو شہروں میں رہتے ہیں، عرفان صدیقی نے بھی یہی کہا ہے ہے کہ
دو جگہ رہتے ہیں ہم ایک تو یہ شہر ِ ملال
ایک وہ شہر جو خوا بوں میں بسا یا ہوا ہے