نئے عیسوی سال 2023 کا سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اُفق سے نمودار ہو چکا ہے۔نئے سال کا استقبال دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف انداز سے کیا جاتا ہے۔نئے سال کی خوشیاں منانے کی یہ روایت دو ہزار دو سو سالوں سے جاری ہے۔کچھ لوگ نئے سال کے ساتھ بہت سی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں۔وہ گزشتہ سال کے ادھورے خواب نئے سال میں پورا کرنے کی آس لگاتے ہیں کچھ لوگ نئے سال کی آمد پر اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نئے سال کی آمد ماہ و سال کے اعداد بدلنے کے سوا کچھ نہیں۔فیض احمد فیض کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "اے نئے سال بتا۔تجھ میں نیاپن کیا ہے۔ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے۔روشنی دن کی وہی، تاروں بھری رات وہی۔آج ہم کو نظر آتی ہے ہر اک بات وہی۔اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے، کسے معلوم نہیں، بارہ مہینے تیرے۔ تو نیا ہے تو دکھا، صبح نئی شام نئی۔ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں کئی سال نئے" سال نو سے متعلق فیض کے خیالات سے اتفاق کرنا اور اختلاف رکھنا سب کا حق ہے۔حقیقت یہ ہے کہ نیا سال ہمیں
گزشتہ سال کی اپنی کارکردگی کا جائزہ لینے اور نئے سال کی منصوبہ بندی کا موقع فراہم کرتا ہے۔ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے خوشی اور کامیابی نصیب ہو۔ ایک سیانے نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ دنیا میں گھوم پھر کر خوشی حاصل کرنے کا راز معلوم کریں۔ فرمانبردار بیٹا باپ کی نصیحت کو پلے باندھ کر گھر سے نکلا۔ نگر نگر پھرتا رہا۔ مگر کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا۔کئی مہینوں تک مختلف ملکوں کی خاک چھاننے کے بعد اسے ایک دانا کا پتہ مل گیا۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ بہت داناہے وہی حقیقی خوشی پانے کا راز بتا سکتا ہے۔موصوف اس دانا شخص کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک پہاڑی کے دامن میں پہنچا۔
جہاں سینکڑوں افراد ان سے ملاقات کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے کئی دنوں کے انتظار کے بعد آخر کار دانا شخص سے ملاقات کا شرف اسے حاصل ہوگیا۔انہوں نے دانا شخص کے سامنے باپ کی نصیحت اور یہاں آنے کا مدعا بیان کیا۔ اس نے بتایا کہ دوسروں کی مدد کرنا اور ان کے دکھوں کو بانٹنا حقیقی خوشی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ دانا شخص کے اس قول میں زندگی کا مقصد، کامیابی کی کنجی اور خوشیاں پانے کا راز مضمر ہے ہم نئے سال کی آمد پر حقیقی خوشی حاصل کرنے کے اس فارمولے پر عمل کرکے اپنی اور دوسروں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرسکتے ہیں۔جس کی بدولت ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔