اتفاق رائے کی ضرورت

پاک فوج کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردی کی نئی لہر اور معاشی و سیاسی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے قومی اتفاق رائے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ پاکستان نیول اکیڈمی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف کا کہنا ہے کہ ملک انتہائی نازک موڑ پر ہے۔ اس مرحلے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر ملک کو بحران سے نکالنے کی حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔ جب ملک دہشت گردی، بدامنی، معاشی بحران، سیاسی خلفشار سے دوچار ہونے لگے۔تو ریاستی ادارے خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھ سکتے۔ سپہ سالار نے جن خطرات کی نشاندہی کی ہے۔ان خطرات کا احساس سیاسی قائدین، دانشور،سماجی حلقے اور عوام بھی کر رہے ہیں۔تجزیہ کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر معیشت کی بحالی کیلئے ٹھوس اور فوری اقدامات نہیں کئے گئے تو ملک دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے۔بدقسمتی سے ہماری حکومتیں اپنے وسائل سے استفادہ کرنے کے بجائے غیر ملکی قرضوں پر انحصار کرتی رہیں۔ ملازمین کو تنخواہیں دینے اور قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے بھی قرضے لئے جاتے رہے۔سولہ سال قبل پاکستان پر 37ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے تھے۔ ان سولہ سالوں میں یہ قرضے 130ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ان غیر ملکی قرضوں سے ہماری حکومتوں نے کوئی بڑے ڈیم، بجلی گھر، صنعتی بستیاں، زرعی و ڈیری فارم نہیں بنائے۔بلکہ یہ رقم قرضوں کی اقساط کی ادائیگی میں خرچ ہوگئے۔ وقت کے ساتھ افراط زر میں بھی اضافہ ہواجس کی وجہ سے مہنگائی بڑھتی گئی۔ روپے کی قدر گرتی رہی۔2007میں ایک ڈالر 50روپے کا تھا۔ایک سال پہلے ڈالر کی قیمت 160روپے تھی آج 245روپے ہوگئی ہے جس کی وجہ سے ہماری درآمدات کے بل دُگنے ہوگئے ہیں۔قدرت نے ہمیں زرخیز زمین، وافر آبی ذخائر، جفاکش افرادی قوت، بے شمار معدنی ذخائر، دلکش سیاحتی مقامات سمیت ہر نعمت سے نوازا ہے مگر انہیں ملکی ترقی کے لئے بروئے کار لانے کیلئے بھر پور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ڈیم اور پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کی طرف توجہ دینا ہوگی ساتھ ہی شمسی توانائی سے بھر پور استفادہ کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے، یہاں یہ امر قابل ستائش ہے کہ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے اس حوالے سے کئی منصوبے لانچ کرنے کا اعلان کیا ہے اور ملک میں تمام سرکاری عمارتوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے منصوبہ شروع کردیا ہے تاکہ ماہانہ 300 سے 500 میگاواٹ کی بچت اور درآمدی بل میں کمی لائی جائے۔ اپریل تک وفاقی حکومت کے زیرانتظام سرکاری عمارتوں اور دفاتر کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے سے کثیر اخراجات کی بچت ہوسکے گی دوسری صورت میں اگر توانائی کے ان غیرروایتی ذرائع سے استفادہ نہیں کیا گیا تو حالات خراب سے خراب تر ہوتے جائیں گے، ماضی میں اس حوالے سے غفلت برتی گئی جس کا خمیازہ آج قوم کو مہنگی بجلی، مہنگی گیس کی صورت میں بھگتنا پڑرہا ہے۔زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم گندم، دالیں، سویابین آئل مہنگے داموں دوسرے ممالک سے درآمد کرتے ہیں اب تو ٹماٹر اور پیاز بھی درآمد کرنے لگے ہیں۔حالت یہاں تک اس لئے پہنچی ہے کہ مستقبل کے حوالے سے مربوط منصوبہ بندی کا فقدان ہے اگر زراعت پر شروع دن سے توجہ مرکوز رکھی جاتی اور کم زمین سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا توآج ہمیں غذائی قلت کا سامنا نہ ہوتا اور نہ ہی قیمتی زرمبادلہ زرعی اجناس درآمد کرنے پر خرچ ہوتا اس حوالے سے تیزی کے ساتھ موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔