طویل مدتی ترقی: اہداف

 پاکستان اپنے مینوفیکچرنگ کے شعبے کو فروغ دینے‘ اعلیٰ قیمت کی اشیاء اور خدمات کی برآمدات کے فروغ اور لوگوں کو زراعت میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنے کے حوالے سے اب بھی بہت کام کی ضرورت ہے حقیقت یہ ہے کہ آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ دیہی علاقوں مقیم ہے۔ زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر کاشت کاری ہو رہی ہے۔ یہ چھوٹے کسان ناقص ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں۔ غیر مؤثر ان پٹ اور آؤٹ پٹ کا الگ سے سامنا ہے اور اعلیٰ لاگت والی غیر رسمی کریڈٹ مارکیٹوں پر انحصار زیادہ ہونے لگا ہے۔ کاشتکار مشکل سے گزر بسر کر رہے ہیں اور اس کی عکاسی دیہی علاقوں میں صحت اور غذائیت سے متعلق تشویشناک اعداد و شمار سے ہوتی ہے۔ طویل مدتی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان ایکسپورٹ بیسڈ مینوفیکچرنگ اور سروسز سیکٹر بنائے۔ چین اور ویتنام جیسے تیزی سے ترقی کرنے والے برآمدی ممالک نے تین دہائیوں کے دوران زراعت میں مزدوروں کے تناسب کو تیس سے پینتیس فیصد پوائنٹس کم کیا ہے جبکہ اسی عرصے کے دوران پاکستان میں صرف سات فیصد پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی ہے تاہم برآمدات پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبے میں بہتری کی ضرورت ہے۔ قلیل مدتی ترقی میں‘ زراعت کے شعبے‘ خاص طور پر چھوٹے پیمانے پر زراعت‘ ایک ”فوری جیت“ فراہم کر سکتے ہیں۔ اس سے ملک کو غربت میں کمی جیسے متعدد اعلی ترجیحی اہداف پورا کرنے کا موقع ملے گا۔ غذائی تحفظ میں اضافہ‘ غذائیت بہتر بنانا اور خاص طور پر نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنا ترجیحات ہونا چاہئے۔ اگر مناسب طریقے سے انتظام کیا جائے تو زرعی پیداوار کی برآمدات میں اضافے‘ درآمدات میں کمی اور ادائیگیوں کے توازن کی صورتحال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور اِس کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ ایک طریقہ جو چھوٹے کاشتکار اختیار کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ مل کر پیداوار کی جاتی ہے۔ کسان تاجر اور ٹرانسپورٹرز کسی خاص فصل کے لئے مل جل کر کام کرتے ہیں۔ ایسے ’زرعی پیداواری گوشوں (کلسٹرز)‘ کی مثالیں زیریں سندھ میں کیلے سے لے کر گلگت بلتستان میں چیری اور خوبانی کی پیداوار تک دیکھی جا سکتی ہیں۔ جن کسانوں نے یہ طریقہ اپنایا اُنہوں نے فی ایکڑ پانچ سے دس لاکھ روپے منافع کمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ دس ایکڑ سے کم رقبے پر کاشتکاری یا باغبانی سے بھی معقول آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح کی پیش رفت لائیو سٹاک کے شعبے میں بھی ہو رہی ہے جہاں پانچ سے پچاس ڈیری جانوروں کے خصوصی پیداواری یونٹس یا ایک لاکھ تک مرغیوں کے پولٹری یونٹس قائم کئے جا رہے ہیں لیکن ایک خصوصی فارم یا لائیو سٹاک یونٹ قائم کرنا ہر ایک کے لئے کارآمد نہیں۔ جانوروں کے دس ڈیری یونٹ کو قائم کرنے کے لئے ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ 10 ایکڑ پر کیلے کے پودے لگانے کے لئے 2کروڑ روپے کی ضرورت ہوتی ہے اور اِن سے پیداوار حاصل کرنے کے لئے کم از کم دو سال تک انتظار بھی کرنا پڑتا ہے۔ ابتدائی سرمائے کے اخراجات کے علاوہ خصوصی پیداوار حاصل کرنے کے خواہشمند کسانوں کو مارکیٹنگ (منڈی) سے نمٹنے کے قابل بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ اِن کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیاں زراعت پر بکثرت اثرانداز ہو رہی ہیں‘ جن کا مقابلہ کرنے کے لئے بیج و کھاد کے علاوہ زرعی طور طریقوں میں تبدیلی بھی وقت کی ضرورت ہے۔ عالمی ادارہئ خوراک (ایف اے او) کی جانب سے متعارف کرائی گئی خصوصی زرعی ٹیکنالوجی کی وجہ سے بہت سے کسان ”متنوع (ڈائیورسفائیڈ) کاشتکاری“ کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی تکنیک ہے جس میں ایک ہی قطعہ اراضی سے مختلف اقسام کی فصلیں حاصل کی جاتی ہیں۔ اب تک کے تجربات سے ”متنوع زراعت“ کامیاب ثابت ہوئی ہے اور اِس کے ذریعے نہ صرف فصل بلکہ کاشتکاروں کو براہ راست یا کسی وسیلے سے مارکیٹ (منڈی) تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ متنوع زراعت کے ذریعے 2 ایکڑ پلاٹ سے سالانہ 10 لاکھ روپے تک منافع حاصل کیا جاسکتا ہے۔ متنوع زراعت والے موسم گرما اور موسم سرما کی سبزی بشمول کریلا‘ بھنڈی‘ شملہ مرچ‘ ٹماٹر‘ کدو‘ پالک‘ گاجر اور بینگن کاشت کرتے ہیں اِس کے علاوہ مچھلی تالاب اور پھول بھی شامل کر لئے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کاشتکار کا ذریعہ سارا سال برقرار رہتا ہے۔ مختلف فصلوں کا یہ مرکب کیڑوں اور بیماریوں سے وابستہ خطرات بھی کم کرتا ہے اور کیڑے مار ادویات کے کم استعمال کی وجہ سے پیداواری اخراجات (لاگت) بھی کم آتی ہے۔ پاکستان کے زرعی تحقیقی نظام کو بھی دور روس تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ جہاں زیادہ تر کوشش و توجہ گنتی کی چند ”اسٹریٹجک فصلوں“ جیسا کہ گندم و چاول پر ہے۔ اس کے برعکس‘ اعلی قیمت کی مصنوعات اور مویشیوں پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ بہتر تحقیق کی کاشتکاروں تک بہتر رسائی ہاتھوں ہاتھ ہونی چاہئے جس کے لئے قومی و صوبائی سطح پر زرعی تحقیقی و توسیعی نظام کو فعال اور مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔زراعت کی ترقی و توسیع پر اخراجات زیادہ لیکن ثمرات کم ہونے کی بنیادی وجہ تکنیکی عملے کی کمی ہے اور جو تکنیکی عملہ موجود بھی ہے تو اُس کے پاس معنی خیز کام کاج کے لئے مالی وسائل (بجٹ) نہیں۔ زراعت کی ترقی ممکن ہو سکتی ہے لیکن اِس کے لئے چھوٹے کسانوں کی ضروریات پورا کرنے کے لئے زرعی تحقیق و توسیع کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا۔