پشاور میں یا د گار خطبے 

آج پشاور میں میرے سُنے ہوئے یا د گار خطبے یا د آ رہے ہیں یا د آنے کی وجہ یہ ہے کہ ایسے خطبے بہت کم سننے کو ملتے ہیں میں نے پشاور میں نما ز جمعہ اور عیدین کے جوخطبا ت سُنے سب یا د گار تھے مسجد دوریش میں مولانا حسن جا ن کا خطبہ، مسجد مہا بت خان میں مو لا نا مبارک شاہ الگیلا نی کا خطبہ اور مسجد طورہ قل با ئے میں قاری عبد السمیع کا خطبہ میں نہیں بھلا سکتا۔ یہ اپریل 1971کا ذکر ہے اخبارات کی سر خیوں میں سیا سی بیانات کا زور ہو ا کر تا تھا شیخ مجیب الرحمن، ذولفقار علی بھٹو، خان عبدالولی خان، قیوم خان، مولا نا بھا شا نی، اور شورش کا شمیری کی دھواں دھار تقریروں کے بڑے چرچے تھے۔ مولا نا مبارک شاہ الگیلا نی کی آواز دھیمی ہوا کر تی تھی ان کا اسلوب بھی نر م اور دھیما ہو تا تھا۔ گھٹن کے اس ما حول میں وہ خوشی اور مسرت کا پیغام اپنے خطبوں میں دیتے تھے انہوں نے حمدو ثنا کے بعد آیت کریمہ کی تلا وت کی اس کا تر جمہ سنا یا، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو آپس میں تفرقہ نہ ڈالو آیت مبا رکہ کی تشریح و تفسیر بیان کرنے کے بعد انہوں نے حدیث شریف مکمل حوالہ اور اسنا د کے ساتھ سنا ئی پھر حدیث 
شریف کا تر جمہ سنا یا ”رسول اکرمؐ نے فر ما یا اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی فر مائی ہے کہ اے مسلما نو! تواضع اور انکسا ری اختیار کرو، کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور کوئی کسی دوسرے پر ظلم و زیا دتی نہ کرے“ اس کے بعد مولا نا نے دھیمے لہجے میں نمازیوں کو سمجھا یا کہ تواضع مو من کی خو بیوں میں سے اہم خو بی ہے اپنے آ پ پر فخر کرنا اور دوسروں پر زیادتی کرنا مو من کو زیب نہیں دیتا، انہوں نے سیاست کا نا م نہیں لیا، سیا سی بیا نات کا حوالہ نہیں دیا اس کے باوجود میرے چار ساتھیوں نے اس خطبے کے بعد سیا سی بحث تمحیص اور جھگڑوں سے توبہ کیا۔ اس طرح مسجد طورہ قل بائے میں قاری عبد السمیع کا خطبہ یا د آتا ہے قاری عبد السمیع لمبے 
قد، ازبک نا ک نقشہ کے ساتھ عربوں کے لہجے میں حمدو ثنا پڑھنے والے بارعب شخصیت کے مالک ہو نے کی وجہ سے خطیبوں میں ممتاز تھے اُس روز کے اخبارات میں دہشت گردی کے بڑے واقعے کی خبریں نما یاں تھیں۔قاری صاحب نے حمد وثنا کے بعد سورہ نساء کی آیت تلا وت کی آیت کا ترجمہ سنا تے ہوئے کہا کہ جس نے کسی مسلمان کو جا ن بوجھ کر قتل کیا تو اس کی سزا جہنم ہے ہمیشہ اس میں رہے گا۔اس کے بعد قاری صاحب نے خطبہ حجتہ الوداع سے حدیث شریف کا حوالہ دیا اور کہا کہ ”نبی اکرمؐ نے فر ما یا آج کے بعد تمہا را خون ایک دوسرے پر حرام ہے ایسا نہ ہو کہ میرے بعد تم ایک دوسرے کی جا ن کے درپے ہو جاؤ“ پھر قاری صاحب نے دوسری حدیث مبارک سنائی ”رسول کریم ؐنے فرما یا قیامت کے روز مقتول اپنے قاتل کو سر اور پیشا نی سے پکڑ کر لائے گا اس حال میں مقتول (فریادی) کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ مقتول بار گاہ رب العزت میں التجا کرے گا کہ اس نے مجھے قتل کیا تھا بار گاہ رب 
العزت سے قاتل کیلئے جہنم کا حکم ہو گا“ حدیث شریف سنانے کے بعد قاری صاحب نے کہا کہ ہر گنا ہ کی توبہ ہے قتل کی تو بہ نہیں مسلما ن کا قتل ہو اور جان بو جھ کر قتل کیا گیا ہو تو اس کی کوئی تو بہ نہیں۔ مولا نا حسن جا ن شہید نے عرب مما لک، افریقہ اور یو رپ کے کئی دورے کئے تھے ان کا علم بہت وسیع تھا۔ان کے لہجے میں شہد جیسی مٹھا س تھی کبھی خطبہ ارشاد کر تے کبھی سوالوں کے جوا ب دیتے جو چھوٹی چھوٹی پر چیوں پر لکھ کر منبر تک پہنچائے جاتے تھے۔ ان کا خطبہ عموما ً مختصر ہوا کرتا تھا، کم بولتے تھے اور جب بولتے دریا کو کوزے میں بند کرتے تھے۔ایک دن سوال آیا تھا کیا مسلمان کے نیک اعمال ضا ئع بھی ہو تے ہیں؟ آپ نے جواب دیا دوصورتوں میں مسلمان کے نیک اعمال بھی ضائع ہوتے ہیں پہلی صورت یہ ہے کہ نبی کریمؐ کی شان مبارک میں گستاخی کرے دوسری صورت یہ ہے کہ کسی مسلمان کو جا ن بو جھ کر قتل کرے، آپ نے آیا ت کریمہ اور احا دیث مبارکہ کے حوالے دیکر جواب کی مدلل وضا حت فرمائی پشاور میں میرے سنے ہوئے یا د گار خطبے یہی تھے ان کی سدا بہار حیثیت ہے۔