توانائی بچاؤ مہم

وفاقی کابینہ نے (چار جنوری دوہزاربائیس کے روز) ملک گیر ”توانائی بچاؤ مہم“ کی منظوری اور اِس پر فوری عمل درآمد کا اعلان کیا ہے۔ حکمت عملی کے تحت جملہ کاروباری مراکز (مارکیٹیں اور شاپنگ ایریاز) رات ساڑھے آٹھ بجے تک بند کر دیئے جائیں گے جبکہ کھانے پینے کے مقامات (ریسٹورنٹس) اور شادی بیاہ کی جگہیں (ویڈنگ ہالز) زیادہ سے زیادہ رات دس بجے تک بند کرنا ہوں گے۔ اندازہ ہے کہ صرف اِس اقدام سے ایندھن کی مد میں حکومت کو 62 ارب روپے کی بچت ہوگی یعنی پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد اور اِس پر اُٹھنے والے دیگر اخراجات میں کمی آئے گی۔ بنیادی طور پر وفاقی کابینہ اجلاس توانائی کے متبادل‘ ماحول دوست‘ کم قیمت (سستے) ذرائع سے استفادے کے لئے طلب کیا گیا تھا جس میں ’متعلقہ وفاقی وزارت (پاور ڈویژن)‘ کی جانب سے تیارہ کردہ مجوزہ منصوبہ پیش کیا گیا اور وفاقی کابینہ نے اُس مجوزہ منصوبے کو بنا ردوبدل منظور کر لیا۔ کاروباری مراکز کی جلد بندش بھی مذکورہ منصوبے کا حصہ تھی‘ جسے ذرائع ابلاغ کے اداروں اور سوشل میڈیا صارفین نے زیادہ اہمیت دی کیونکہ اِس کا فوری اطلاق اور اثر ہر خاص و عام پر ہوگا لیکن کچھ ضمنی باتیں خاطرخواہ توجہ حاصل نہیں کر سکیں جیسا کہ 1: وفاقی حکومت کے زیرنگرانی وزارتوں اور محکموں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بجلی کے استعمال میں تیس فیصد کمی لائیں اور دفاتر میں بجلی کے آلات حسب ضرورت لیکن کم سے کم استعمال کریں۔ 2: یکم جولائی دوہزارتیئس سے بجلی کے ایسے آلات کی پیداوار روک دی جائے گی جو زیادہ بجلی خرچ کرتے ہیں‘ اِس اقدام سے پندرہ ارب روپے کی بچت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ آئندہ یکم جولائی سے ناکارہ بجلی کے پنکھوں کی پیداوار روک دی جائے گی، انہوں نے کہا کہ اس مد میں 15 ارب روپے کی بچت کے لیے ناکارہ بجلی کے پنکھوں پر اضافی ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔ 3: توانائی بچت مہم سے متعلق ذرائع ابلاغ (پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا) اور سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سوشل میڈیا) ’آگاہی مہم‘ شروع کی جائے گی۔ 4: زیرزمین اور دستیاب پانی کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے پانی کے نرخوں پر نظرثانی کی جائے گا۔ 5: بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز پانی کا مؤثر استعمال یقینی بنانے کے لئے ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے متعلق قواعد پر نظرثانی کریں گے۔ 6: یکم فروری دوہزارتیئس سے ایسے بجلی بلبوں کی تیاری روک دی جائے گی‘ جو زیادہ بجلی خرچ کرتے ہیں اور اِس اقدام سے 2 ارب روپے کی بجلی بچائی جا سکے گی۔ 7: گلی محلوں اور شاہراؤں کو روشن کرنے والی سٹریٹ لائٹس کو کم بجلی خرچ کرنے والے آلات یا متبادل توانائی کے آلات سے تبدیل کیا جائے گا۔ 8: گیس کی بچت تحفظ یقینی بنانے کے لئے ’واٹر گیزر‘ میں بچت آلات نصب کئے جائیں گے جس سے 92ارب روپے کی بچت ہوگی۔ 9: بجلی کی طاقت سے چلنے والے موٹرسائیکل متعارف کروائے جائیں گے تاکہ درآمدی پیٹرول کی بچت ہو۔ ”توانائی بچت مہم“ سے متعلق تاجروں اور دیگر کاروباری طبقات کی نمائندگی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ”معاشی سرگرمیاں کم کر کے توانائی کے تحفظ کی بجائیسرکاری عمارتوں میں دن رات چلنے والے ائر کنڈیشنر‘ ہیٹر و دیگر برقی آلات کے استعمال کے ذریعے بھی توانائی کا تحفظ ممکن ہے جبکہ معاشی مشکلات و بیروزگاری کی شرح کو دیکھتے ہوئے کاروباری مراکز کو بلاتعطل بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جانی چاہئے تاکہ معاشی پہیہ چلتا رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تجویز سامنے آئی ہے کہ جو کاروباری مراکز ’شمسی توانائی‘ کے ذریعے روشن ہیں‘ اُنہیں پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ دوسری تجویز یہ سامنے آئی ہے کہ بجلی کی بچت کرنے کی بجائے تھر میں کوئلے کے وسیع ذخائر سے استفادہ کرتے ہوئے بجلی کی پیداوار بڑھائی جائے۔ تیسری تجویز شمسی توانائی اور ونڈ انرجی میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو بینکوں سے بلاسود قرضہ جات کی فراہمی کی جائے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ گھر بیٹھے خریداری کی سہولیات فراہم کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اِنہیں ٹیکسوں و دیگر محصولات سے استثنیٰ کے علاؤہ تکنیکی رہنمائی فراہم کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ کاروبار اپنے صارفین کو ’آن لائن خدمات‘ فراہم کر سکیں۔ اس وقت دنیا کے زیادہ ترممالک میں آن لائن تجارت اور کاروبار کا دوردورہ ہے اور ڈھیر ساری بین الاقوامی کمپنیاں گھر بیٹھے اپنے ملازمین سے معاملات نمٹا رہی ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نہ صرف ان کمپنیوں کو فائدہ ہوا ہے بلکہ ان کے ملازمین بھی پہلے سے زیادہ مطمئن اور خوشحال ہیں اس فارمولے کو پاکستان میں بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔ ایک اور تجویز سرکاری دفاتر سہ پہر تین بجے تک بند کرنے کے حوالے سے ہے جبکہ بینکوں (مالیاتی اداروں) کی شاخیں توانائی بچاؤ کے لئے اپنے کاروباری اوقات کار محدود رکھیں اور آن لائن بینکنگ میں سرمایہ کاری کریں۔ ایک تجویز شادی ہالز مالکان کی جانب سے آئی ہے کہ شادی بیاہ کے معمولات رات کی بجائے دن کی روشنی اور سرشام کرنے کی حکومتی سطح پر حوصلہ افزائی ہو۔ ایک تجویز تاجروں اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے مشترکہ طور پر سامنے آئی ہے کہ کسی بھی قومی حکمت عملیوں کو بناتے وقت صوبوں اور متعلقہ حلقوں (سٹیک ہولڈرز) سے مشاورت کی جائے تو ایسی حکمت عملیوں کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ اتفاق رائے سے جو بھی کام کیا جائے اس کا نتیجہ زیادہ بہتر سامنے آتا ہے اور توانائی بچت کے حوالے سے بھی اسی پر عمل کرنا چاہئے۔ سوشل میڈیا صارفین کی ایک تعداد ”بجلی بچاؤ مہم“ کی یہ کہتے ہوئے تعریف کر رہی ہے کہ دنیا بھر میں کاروباری مراکز شام پانچ سے چھ بجے تک بند کر دیئے جاتے ہیں تو ایسا پاکستان میں کیوں نہیں ہونا چاہئے؟ توانائی کا ضیاع روکنا درحقیقت توانائی کی پیداواری صلاحیت میں بنا سرمایہ کاری کئے اضافہ ہے اور ہر خاص و عام کو چاہئے کہ وہ ”بجلی بچاؤ مہم“ میں حصہ لے کر ایک منظم و باشعور پاکستانی ہونے کا ثبوت دے۔اس تمام معاملے کو دیکھا جائے تو جو فارمولا ہمارے بہت سارے مسائل کو حل کر سکتا ہے وہ اعتدال اور کفایت شعاری کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہے اس طرح ہم نہ صرف توانائی کے شعبے میں واقعہ ہونے والی کمی کو دور کر سکتے ہیں بلکہ بہت سارے ایسے اخراجات سے چھٹکارہ پا سکتے ہیں جو نہ صرف ہماری اجتماعی معیشت پر بوجھ ہیں بلکہ ہماری انفرادی زندگی میں بھی مسائل کا باعث ہیں اگر ہم میں سے ہر کوئی اپنا طرز زندگی تبدیل کرلے اور تمام مصارف کو اعتدال کے پیمانے میں رکھے تو کوئی وجہ نہیں کہ بحیثیت قوم ہم ڈھیر سارے مسائل سے چھٹکارہ پانے میں کامیاب ہوں۔