ملاوٹ کی وباء

 یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ کھلے دودھ میں پانی کے علاوہ مختلف اقسام کے کیمیکلز کی ملاوٹ ہوتی ہے۔جس شہر میں بھی کھلے دودھ کی لیباری میں ٹیسٹ کئے گئے ہیں وہاں صورتحال حوصلہ افزاء نہیں ہے۔  آٹا، دال، چاول، چائے، مصالحہ کی طرح دودھ بھی روزمرہ استعمال کی چیز ہے۔ یہ ہر گھر کی ضرورت ہے۔ خصوصا شیر خوار بچوں کو شہروں میں عام طور پر بازاری دودھ پلایا جاتا ہے۔ اگر شیرخوار بچے کو مضر صحت دودھ کی خوراک ملے تو لامحالہ اس کی صحت پر مضر اثرات پڑتے ہیں۔ دودھ میں پانی کی ملاوٹ ہماری بہت پرانی معاشرتی بیماری ہے۔ زیادہ سے زیادہ پیسے بٹورنے کے لئے دودھ میں جو پانی ملایا جاتا ہے۔ اس پانی کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔کیونکہ نہروں، ندیوں میں بہنے والے پانی کے علاوہ سرکاری نلکوں سے آنے والے پانی کے مضر صحت ہونے کی رپورٹیں سامنے آتی رہی ہیں۔ پانی آلود دودھ کو گاڑھا کرنے کے لئے جو کیمیکلز اس میں ملائے جاتے ہیں وہ بھی انتہائی مضر صحت اور غیر معیاری ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شہر میں صرف محکمہ لائیو سٹاک کے قائم کردہ واحد ملک ٹیسٹنگ لیبارٹری پر انحصار نہ کیا جائے۔  بلکہ مختلف محکموں کے اشتراک عمل سے شہر کے مختلف علاقوں میں ملک ٹیسٹنگ لیبارٹریاں قائم کریں اور ہفتہ وار بنیادوں پر دودھ فروشوں سے نمونے لے کر ٹیسٹ کروائے جائیں تاکہ ناجائز منافع کی لالچ میں عوام کو مضر صحت دودھ فراہم کرنے والوں کا محاسبہ کیا جاسکے۔ٹین کے ڈبوں اور ٹیٹراپیک دودھ کے پیکٹوں کا لیبارٹری تجزیہ بھی ناگزیر ہے تاکہ قوم کے نونہالوں کو غیر معیاری اور آلودہ دودھ سے پہنچنے والے نقصانات سے بچایا جاسکے۔ صوبائی حکومت اس حوالے سے کافی سرگرم ہے،  ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور گرانفروشی کرنے والی مافیا کے خلاف موثر، بلاامتیاز، جارحانہ اور مستقل مہم چلانا وقت کی ضرورت ہے۔تاکہ عوام کو خالص اور معیاری اشیائے خوردونوش کی فراہمی ممکن ہوسکے۔  بد قسمتی سے ملاوٹ کرنے والے ہم میں سے ہوتے ہیں، انہیں اس کی پرواہ نہیں کہ وہ دوسروں کے بچوں کو زہر کھلا کر ان کے خون سے اپنے بچوں کو پال رہے ہیں۔  انہیں روکنا نہ صرف حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے بلکہ عام لوگوں کو بھی ایسے عناصر کی نشاندہی اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر کرنا چاہئے۔ سارا کام حکومت پر ڈال کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے سے ہمارے مسائل کبھی حل نہیں ہوسکتے۔ اس لئے ہر ذمہ دار شہری کو اپنا اخلاقی، مذہبی اور قومی فریضہ سمجھ کر سماج دشمن عناصر، ناجائز منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں، ملاوٹ کرنے والوں اور گرانفروشوں کی نشاندہی کرنی ہوگی۔ تب جاکر معاشرے کی اصلاح ہوگی اور اس کا فائدہ ہر شہری کو پہنچے گا۔ اگر ہم میں سے ہر کوئی ملاوٹ کرنے و الے سے قطع تعلق کرے اور اسے معاشرے میں الگ تھلگ کیا جائے تو جلد ہی وہ اپنی روش پر نادم ہو کر اسے ترک کردے گا۔