توانائی بحران: قومی اتفاق رائے

توانائی بچاؤ حکمت ِعملی (نیشنل انرجی ایفیشنسی اینڈ کنزرویشن پلان) خوش آئند اقدام ہے لیکن ہر خواہش کی طرح اِس خواہش کی تکمیل بھی آسان نہیں اور نہ ہی عوام الناس کے وسیع و غیرمشروط تعاون کے بغیر اِس کی کامیابی ممکن ہے۔ یہ تاثر دینا کہ بجلی بچت کے لئے کاروباری اوقات کار کم کئے گئے ہیں درست تشریح نہیں بلکہ حکومت چاہتی ہے کہ کاروباری اوقات کار میں زیادہ سے زیادہ ’دن کی روشنی‘ یا متبادل توانائی کا استعمال کیا جائے۔دوسری طرف حکومت کا کام صرف حکمت ِعملی کے اعلان تک محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ اِس سلسلے میں جن اصلاحات و اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے اُن پر عمل درآمد یقینی بنانے کا آغاز سرکاری دفاتر سے ہوتا نظر آنا چاہئے۔ عوام یہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ ماحول دوست (صاف ستھری) اور قابل تجدید توانائی سے متعلق حکومتی پالیسی  پر تیزی سے عملدرآمد ہو۔
سوال: نیشنل انرجی ایفیشنسی اینڈ کنزرویشن پلان کی ضرورت آخر کیوں پیش آئی؟ بجلی کے شعبے میں گردشی قرضوں کو کم کرنے میں اب تک کی کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گردشی قرض 2 کھرب 43 ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں۔ یہی صورتحال گیس کے شعبے کی بھی ہے جہاں گردشی قرض 250 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ بجلی و گیس کے شعبے میں گردشی قرضے کم کئے بغیر نہ تو قیمتیں کم ہوں گی اور نہ ہی اِن شعبوں کی صلاحیت میں حسب طلب و ضرورت اضافہ کیا جا سکے گا۔ توانائی کی تقسیم اور ترسیل بڑھانے کا مطلب کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہے جبکہ اِس کی فراہمی میں کمی کا سیدھا سادا مطلب کاروباری سرگرمیوں میں کمی ہے لہٰذا قومی معاشی بہتری کے لئے پہلی ضرورت توانائی کی وافر مقدار میں فراہمی کے سوا کوئی دوسری صورت نہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے کہ بالخصوص بجلی کے ترسیلی نظام میں موجود خرابیوں کو دور کیا جائے۔ یہ کتنا بڑا مسئلہ ہے اِس کا اندازہ
 اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ہر سال بجلی کی کل پیداوار کا 20 فیصد حصہ ’لائن لاسز کی نذر ہو جاتا ہے۔ ’لائن لاسز کی اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ بجلی گھروں سے صارفین تک بجلی پہنچنے کے دوران جو بجلی ضائع یا چوری ہو جائے۔ توانائی بحران پر قابو پانے کے لئے بجلی کی ترسیلی کمپنیوں کے ’لائن لاسز‘ کم کرنے کا انتظام کیا جائے بشمول بجلی چوری پر قابو پایا جائے تو سالانہ باسٹھ ارب روپے سے زائد کی بچت ہو سکتی ہے۔ذہن نشین رہے کہ بجلی کے تقسیم کار بارہ اداروں میں سے گیارہ حکومت کی ملکیت ہیں جبکہ ’کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی‘ کی نجکاری کی گئی ہے لیکن کراچی الیکٹرک کے لائن لاسز 34 فیصد سے زیادہ ہیں! گزشتہ سال جب وفاقی بجٹ پیش کیا گیا تھا تو بہت سے معاشی ماہرین نے نشاندہی کی تھی کہ توانائی کے عالمی بحران کی وجہ سے پاکستان کو توانائی کے تحفظ کے لئے سخت گیر اور فوری اقدامات کرنے چاہیئں جیسا کہ کاروباری مراکز (مارکیٹوں) کو جلد بند کرنا‘ کام کاج کے لئے دن کی روشنی کا زیادہ استعمال اور ایندھن کی کھپت بچانے کے لئے گھروں سے کام کاج کی اجازت دینے جیسے امور تجاویز کا حصہ تھے
پاکستان کی معاشی صورتحال ایک ایسے بحران کا شکار ہے جسے راتوں رات اور چٹکی بجا کر حل نہیں کیا جا سکتا۔ اِس کے لئے وسیع البنیاد اور کثیرالجہت منصوبہ بندی و سخت گیر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ عالمی توانائی اور معاشی بحرانوں کی وجہ سے پاکستان
 میں توانائی (بجلی و گیس اور پیٹرولیم) کے شعبوں ہی نہیں بلکہ معیشت کو سنبھالنے کی بھی ضرورت ہے۔ گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب کے بعد‘ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات دیکھنے میں آئے ہیں۔ پاکستان کو ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کم کرنے میں معاون ثابت ہوں۔ اِس سلسلے میں سب سے اہم اقدام یہ ہوگا کہ توانائی کی ضرورت ایسے وسائل سے پوری کی جائے جو ماحول دوست ہوں۔ توانائی کی زیادہ مؤثر منصوبہ بندی سے معیشت پر گردشی قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ تمام نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو توانائی کے متبادل اور قابل تجدید ذرائع جیسا کہ شمسی توانائی کے پلانٹس اور ہوا کی طاقت (ونڈ انرجی) سے بجلی حاصل کرنے کو ترجیح بنانا چاہئے۔ نئی ہاؤسنگ سکیموں کے لئے لازم قواعد جیسا کہ سڑکوں کی تعمیر‘ پانی و صفائی ستھرائی پر مبنی بنیادی ڈھانچے کی فراہمی میں ”شمسی پینلز“ کو بھی شامل کر دیا جائے تو اِس سے خاطرخواہ فائدہ حاصل کیا جا سکے گا۔ اِن تنصیبات کے ساتھ توانائی کا منصوبہ ہونا ضروری ہے۔ یہی اصول ’سٹریٹ لائٹس‘ پر بھی یکساں لاگو کیا جائے اور سٹریٹ لائٹس کو گرڈ سے تقسیم ہونے والی بجلی کی بجائے شمسی پینلز پر منتقل کیا جائے‘ جو قابل عمل و آسان حل ہے۔ شمسی پالیسی کے گرد سخت حکومتی قواعد (سرخ ٹیپ) لپٹی ہوئی ہے جس کے بارے میں عوامی شکایات ’آن دی ریکارڈ‘ ہیں۔ اگر قومی و صوبائی فیصلہ ساز ’شمسی پالیسی‘ پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے قواعد میں نرمی کریں اِس سے نہ صرف صارفین بلکہ ملک کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق حکمت عملی کو بھی فائدہ ہوگا۔ توانائی بحران صرف ”بحران“ نہیں بلکہ ”قومی سطح پر ہنگامی حالات (ایمرجنسی)“ کا عکاس ہے اور تمام صوبائی حکومتوں کو وفاق کے ساتھ مل کر اس معاملے و مسئلے کے حل میں‘ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تعاون کرنا چاہئے، توانائی بحران کی صورت ہنگامی صورتحال‘ ہنگامی بنیادوں پر قومی اتفاق رائے کی متقاضی ہے۔