ہاکی کا عروج اور زوال۔۔۔ایک جائزہ

دنیا بھر سے ہاکی کھیلنے والے سرفہرست ممالک رواں ماہ کے آخر (13 جنوری سے 29 جنوری 2023ء) بھارت کے دو شہروں ’بھونیشور‘ اور ’رورکیلا‘ میں منعقد ہونیوالے ’2023ء کے ہاکی ورلڈ کپ‘ میں شرکت کریں گے (پہلا مقابلہ جنوبی افریقہ اور ارجنٹائن کی ٹیموں کے مابین تیرہ جنوری کے روز پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر ساڑھے بارہ بجے اور بھارت کے وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے کھیلا جائے گا اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ بھارت دوسری مرتبہ عالمی ہاکی کپ کی میزبانی کا اعزاز حاصل کر رہا ہے) خاص بات یہ ہے کہ چار مرتبہ ہاکی کا ورلڈ کپ جیتنے والا (چیمپیئن ملک) پاکستان اِس مرتبہ عالمی مقابلے کھیلنے والی ٹیموں کا حصہ نہیں ہے پاکستان میں کھیل اور بالخصوص قومی کھیل دہائیوں سے نظرانداز اور زوال پذیر ہے‘ پاکستان کی ہاکی ٹیم ایشیا کپ میں مایوس کن پانچویں پوزیشن حاصل کرنے کے بعد ہاکی کے ورلڈ کپ مقابلوں کیلئے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی تھی اگر ورلڈ کپ کے ’کوالیفائنگ ایونٹ‘ کو سنجیدگی سے لیا گیا ہوتا تو آج قومی ٹیم بآسانی ورلڈ کپ کھیل رہی ہوتی۔ بہرحال پاکستان کے اِس عالمی مقابلے سے باہر ہونے کے باوجود اِسکے پرانے حریف بھارت‘ کوریا‘ جاپان اور ملائشیا ورلڈ کپ میں براعظم ایشیا کی نمائندگی کریں گے جہاں عالمی اعزاز (ٹائٹل) کیلئے اصل معرکہ جرمنی‘ اسپین‘ ہالینڈ اور بلجیئم اور موجودہ عالمی نمبر ایک آسٹریلیا کی ٹیموں کے درمیان ہوگا‘ یہ پاکستان کیلئے واقعی افسوسناک صورتحال ہے‘ جسے قومی المیہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ ہم اپنے قومی کھیل کو خاطرخواہ اہمیت اور توجہ نہیں دے رہے! پاکستان میں کھیلوں کے فیصلہ سازوں کو اِس صورتحال اور اپنی شرمناک کارکردگی پر غور کرنا چاہئے کہ حالیہ چند برسوں میں اولمپک گیمز اور ورلڈ کپ جیسے بڑے بین الاقوامی مقابلوں کیلئے اگر پاکستان کی نمائندگی کرنیوالی قومی ٹیم کوالیفائی نہیں کر سکی ہے تو درحقیقت یہ کس کی ناکامی ہے؟ اور یہ زوال بالخصوص ایک ایسے ملک کے شایان شان ہے جو کبھی ہاکی کی دنیا میں ”سپر پاور“ سمجھا جاتا تھا؟ اور پاکستان کے کئی کھلاڑیوں کے بنائے ہوئے ریکارڈ آج بھی کوئی کھلاڑی نہیں توڑ سکا ہے اور پاکستان میں ہاکی کا ٹیلنٹ موجود بھی ہے تو اِس سے خاطرخواہ استفادہ کیوں نہیں کیا جا رہا؟ پاکستان نے ایک دو نہیں بلکہ 4 مرتبہ ورلڈ کپ ہاکی ٹائٹل جیتا اور پاکستان نے تین اولمپک طلائی تمغے اور بے شمار دیگر بین الاقوامی ٹائٹلز جیت رکھے ہیں لیکن نوے کی دہائی سے زوال شروع ہے‘ سال 1994ء کے دوران آسٹریلیا میں کھیلے گئے مقابلوں میں پاکستان کی ورلڈ کپ فتح کے فوراً بعد شروع ہونیوالا زوال اِس انتہا تک پہنچ چکا ہے کہ اب پاکستان کی ہاکی ٹیم اِس قابل بھی نہیں رہی کہ یہ عالمی مقابلہ کھیل سکے‘ تصور کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی ہاکی ٹیم کی تیاری اور کھیل کس قدر کمزور ہو چکا ہے کہ اگر عالمی مقابلے کیلئے کوالیفائی کر بھی لیتی تو خاطرخواہ کھیل کا مظاہرہ نہ کر سکتی اور یہ بات شاید زیادہ شرمندگی کا باعث ہوتی کیونکہ پاکستان کیلئے ہاکی کے کسی عالمی مقابلے میں تمغہ جیتنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔توجہ طلب ہے کہ بین الاقوامی ہاکی میں پاکستان کا زوال راتوں رات نہیں ہوا۔ منصوبہ بندی کا فقدان‘ نااہل اور بعض صورتوں میں بدعنوان اہلکاروں‘ کھیل کیلئے مختص مالی وسائل (فنڈز) میں خردبرد‘ انتظامی بدعنوانیاں اور کھیل کے بنیادی ڈھانچے کی کمی و مندی جیسی بنیادی وجوہات کی وجہ سے ’ہاکی‘ کا کھیل زوال پذیر ہوتا چلا گیا لیکن کسی نے اِس کا بروقت نوٹس نہیں لیا اور نہ آج فیصلہ سازوں کی آنکھیں اِس نقصان (خسارے) پر نم ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستان کی ہاکی ٹیم اپنے ہی ماضی میں الجھ گئی ہو اور اِس کے پاس سوائے ماضی کی چند ایک یادیں اور کامیابیوں کے شمار کے کوئی دوسری قابل ذکر شے نہ رہی ہو۔ کوئی ملک اگر اپنے قومی کھیل‘ اپنے قومی لباس اور اپنی قومی زبان کو ترجیح نہیں دیتا تو غیور اقوام عالم کی فہرست میں اُس کی درجہ بندی انتہائی نیچے رہتی ہے جیسا کہ پاکستان اپنے قومیت کو نظرانداز کرنے کی بھاری قیمت اَدا کر رہا ہے۔ بات کھیل کی ہو رہی ہے اور بات ہاکی کے کھیل کی ہو رہی تو کسی بھی کھیل کے میدان میں کامیابیاں اور ناکامیاں دائمی نہیں ہوتیں لیکن جب ہم پاکستان ہاکی ٹیم کا جائزہ لیتے ہیں تو یہاں ہمیں ناکامیاں مستقل ڈیرے ڈالے دکھائی دیتی ہیں کیونکہ کھیلوں سے متعلق فیصلہ سازی پر مختلف طبقات کے ذاتی مفادات حاوی ہیں۔ کھیلوں کی ایسوسی ایشنز پر ایسے لوگ مسلط ہیں جن کی کارکردگی سوائے خسارے و ناکامی اور بدنامی پاکستان کے لئے کچھ اور حاصل نہیں کر سکی ہیں۔ سال 2003ء میں پاکستان نے ہالینڈ کے ماسٹر کوچ رولنٹ اولٹمینز کی خدمات حاصل کی تھیں تاکہ ہاکی کے کھیل میں اپنے کھوئے ہوئے مقام کو نہ صرف حاصل کرے بلکہ اپنی ناکامیوں کو کامیابیوں سے بدل دے۔ غیرملکی کوچ کی خدمات حاصل کرنے کا یہ تجربہ کامیاب ثابت ہوا اور پاکستان کی ہاکی ٹیم نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیمپئنز ٹرافی میں تمغے حاصل کئے‘اِسکے بعد ایتھنز میں سال 2004ء کے اولمپک مقابلوں میں پاکستان کی ٹیم پانچویں پوزیشن پر رہی لیکن پاکستان نے غیرملکی کوچ کی خدمات سے استفادہ جلد ہی ختم کر دیا جسکے بعد سے قومی ٹیم کی کارکردگی خراب ہوتی چلی گئی۔ گزشتہ سال پاکستان نے ہالینڈ کے ایک اور کھلاڑی سیگفریڈ ایکمان کی خدمات بطور قومی کوچ حاصل کیں۔ ایشین گیمز 2018ء میں جاپان کی شاندار کامیابی کے پیچھے اِسی ماسٹر مائنڈ (غیرملکی کوچ ایکمان) کا ہاتھ تھا۔ اِس غیرملکی کوچ نے ابھی قومی ٹیم کی تربیت شروع ہی کی تھی کہ مالی وسائل (فنڈز) کی کمی کی وجہ سے تربیت کا یہ انتظام ختم کر دیا گیا۔ مالی وسائل کی کمی کے علاوہ ہاکی سے متعلق فیصلہ کرنے والے حکام کی ناقص پالیسیاں بھی اِس کھیل کے فروغ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی ہے۔ صورتحال اس قدر خراب ہے کہ غیرملکی کوچ ’ایکمان‘ تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور ہاکی کے معاملات میں مداخلت کی وجہ سے پیدا ہونیوالے تنازعات کی وجہ سے پاکستان چھوڑ کر چلے گئے۔ آج پاکستان ہاکی کھیلنے والے اُن سولہ ممالک کی فہرست میں بھی شامل نہیں رہا کہ جنہوں نے ورلڈ کپ کیلئے کوالیفائی کیا ہے۔