پہلے اس نے کیا کہا پھر کیا کہا، پھر کیا کہا 

 یادش بخیر پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنے سنہرے دنوں میں بہت یادگار ڈرامے پیش کئے ہوئے ہیں جس کی باز گشت پڑوس کے شوبز کے حلقوں سے بھی سنائی دیتی رہی ہے، ان میں ایک مقبول ڈرامہ سیریز میں ایسی کہانیاں پیش کی جاتی رہی ہیں جن کی بنیاد موصول ہونے والے ان خطوں پر مبنی تھی جو کئی سال پہلے پوسٹ کئے گئے تھے اور اس دوران خط کے بروقت وصول نہ ہونے کی وجہ سے حالات کیا سے کیا ہو گئے تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پیغام رسانی کا سارا دارو مدار خطوط پر ہی استوار ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے میں پوسٹ آفس کا نظام کچھ زیادہ بہتر نہ تھا اور کالموں سے ڈراموں تک اور وہاں سے لے کر لطیفوں اور چٹکلوں تک اس ادارے کی کارکردگی کو نشانے پر رکھا جاتا، اس ادارے کے قیام سے پہلے پیغام رسانی کا کام کبوتر بھی انجام دیا کرتے تھے، اور تب عاشق زار کبوتروں کے ترلے منتیں کر کے ان کو محبوب تک جانے پر آمادہ کرتے جس کی ایک جھلک ہماری فلموں میں اس دور کی کہانیوں میں نظر آتی تھی معروف فلم دلا بھٹی کا منور سلطانہ کی آواز میں یہ گیت بھلا کون بھول سکتا ہے ”واسطہ ای رب دا تو جاویں وے کبوترا۔ چٹھی میرے ڈھول نوں پہنچاویں وے کبوترا“ اور پھر اس کام کے لئے خصوصی ہرکارے رکھے گئے نجی سطح پر قاصد وں اور نامہ بروں کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے، شاعری میں قاصد کے حوالے سے ان گنت اشعار اور عمدہ نظمیں موجود ہیں، با کمال غالب تو قاصد کو خط دے کر بھیجنے کے بعد بھی جواب کا انتظار کئے بغیر یہ کہہ کر دوسرا خط لکھنے بیٹھ جاتے کہ
 قاصد کے آتے آتے خط ایک اور لکھ رکھوں 
 میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں 
جب کہ دوسری طرف آتش جیسے شعرا ء بھی مو جود تھے جنہیں یہ سہولت بھی دستیاب نہ تھی مگر چونکہ آتش شاعر تھے اس لئے اس کمی یا محرومی کو بھی وہ مثبت طور لیتے اور بیان کرتے ہیں، 
 پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا 
 زبان ِ غیر سے کیا شرح ِ آرزو کرتے
 اس زمانے میں قاصد کو بھیجنا اور اس کی واپسی کا انتظار کرنا ایک دل خوشکن سرگرمی ہوا کرتا تھا،اب ہم ایک ایسے زمانے تک آ پہنچے کہ پیغام کا بھیجنا اور وصول کرنا محض ایک کلک کی دوری پر رہ گیا ہے، اب سرکاری خط و کتابت بھلے سے ای میل پر ہو، نجی معاملات کے لئے فیس بک میسنجر اور وٹس ایپ کے ”قا صد“ شب وروز اس خدمت کے لئے مستعد اور تیار ہیں، اور یہ سہولت کم و بیش مفت موجود ہے، البتہ اس کے لئے ذرا احتیاط کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ اب براہ راست پیغام رسانی کے ساتھ ساتھ ہم خیال احباب کے گروپس بن گئے ہیں اور بے خیالی میں کبھی کبھی انتہائی ذاتی نوعیت کا میسج کسی گروپ میں شئیر ہو جاتا ہے، اور وہی فراز والی صورت حال بن جاتی ہے کہ 
 ملیں جب ان سے تو مبہم سی گفتگو کرنا
 پھر اپنے آپ سے سو سو وضاحتیں کرنی 
 گزشتہ شب ایسا ہی ہوا کہ میں ایک آن لائن مشاعرہ میں تھا کہ ایک معروف ادبی گروپ ”گزرگاہ ِ خیال“ سے ایک فون آیا، مگر میں مشاعرہ کی وجہ سے فون نہ لے سکا، مشاعرہ کے بعد میں نے اس گروپ میں وائس نوٹ کیا کہ کسی دوست کا فون آیا تھا میں اب فری ہوں وہ کال کر سکتا ہے، تو قطر سے محبی ڈاکٹر فیصل حنیف کا جواب آیا کہ ”جناب وہ انڈیا سے معروف شاعر جلیل نظامی مجھے کال کرنا چاہتے تھے جو غلطی سے کال گروپ میں چلی گئی“ اب ایک لمحہ کو سوچئے کہ جب رات گئے (پاکستان میں) بیک وقت بیسیوں دوستوں کے فون بجے ہوں گے تو کیا سماں ہو گا، لیکن اس سب کچھ کے باوجود خط کا رومینس اپنی جگہ باقی ہے، اور قاصد ہرکار ے اب ایک نظام کے تحت کام کرتے ہیں اور ڈاکیہ یا پوسٹ مین کہلاتے ہیں، اور پوسٹ آفس میں خطوں کے ساتھ ساتھ تحفے تحائف اور کتابوں سے ضروریات زندگی کی ترسیل کا سلسلہ بھی جاری ہے ہر چند اب تیز رفتار کورئیر بھی شہر میں یہی کام نسبتاً بہتر انداز میں انجام دے رہے ہیں لیکن ان کے ریٹس اتنے زیادہ ہیں کہ لا محالہ پوسٹ آفس کی سروسز سے رجوع کرنا پڑتا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی سروسز گزشتہ کل کی نسبت اب بہت بہتر ہیں، خصوصا ًبیرون ملک بھیجے جانے والے پارسل جو کتب اور دیگر اشیاء پر مبنی ہو تے ہیں جو وقت تو بہت لیتے ہیں لیکن محفوظ طریقہ سے پہنچ جاتے ہیں اور نئے دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان میں ”ٹریکنگ“ کی سہولت سمیت معمولات کو بہتر بنا لیا گیا ہے، کوئی سات دن قبل مجھے بھی اس سہولت کی ضرورت آن پڑی اور میں سرد موسم میں کشاں کشاں پشاور کے جنرل پوسٹ آفس تک جا پہنچا، مگر وہاں جا کر معلوم ہوا کہ نیٹ میں خرابی کی بناء پر فی الحال ہم معذرت خواہ ہیں، البتہ کل صبح ۹ بجے کے بعد جب نیٹ بحال ہو جائے گا، تو آپ آجائیں، میں نے کہا کیا خبر صبح ۹ بجے تک سسٹم بحال نہ ہو تو آپ فون نمبر دے دیں، تا کہ معلوم کر کے پھر آجاؤں، نمبر مل گیا مگر دوسرے دن فون کرنے پر پتہ چلا کہ ابھی سسٹم بحال نہیں ہوا۔ پھر اس دن دوبار رابطہ بھی بے کار گیا۔ با ت پھر دوسری، تیسری اور چوتھی صبح  تک گئی مگرجواب نفی میں ملا، بالآخر مایوس ہو کر متبادل انتظام کرنا پڑا۔
اب کہہ نہیں سکتا کہ شہر کے اتنے بڑے اور معتبر ادارے کے سسٹم میں ایسی کیا خرابی واقع ہو چکی ہے، جو آئی ٹی اور ٹیکنالوجی کے عروج کے اس دور میں بھی بگاڑ گھنٹوں دنوں سے شروع ہو کر ہفتوں تک پھیل گیا ہے، جتنے دنوں میں پارسل کو پہنچنا تھا اتنے دن آج اورکل میں گزر گئے، اس سے تو وہی دور بہتر تھا جب قاصد کے آنے کا انتظار رہتا اور پھر کوئی داغ دہلوی قاصد کو عزت و احترام سے پاس بٹھا کر کہا کرتا تھا۔
 اب ذرا تفصیل سے اے قاصد ِ خوش رَو بتا 
 پہلے اُس نے کیا کہا، پھر کیا کہا، پھر کیا کہا؟