عالمی مالیاتی اِدارے (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کی ”معاشی بحالی“ کے لئے قرض کی اَقساط جاری کرنے کا اِشارہ اپنی جگہ ”خوش آئند اور انتہائی اہم پیش رفت“ ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے ’آئی ایم ایف‘ کی شرائط پر پورا اُترنے کا عزم ملک کو تباہی کے دہانے سے واپس لانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ خبر یہ ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ نے وزیر اعظم شہباز شریف کی ذاتی سفارش پر اپنا جائزہ مشن بھیجنے پر اتفاق کیا ہے۔ پاکستان کے لئے بنیادی مسئلہ قرض اور سود کی واپسی اور درآمدات کے لئے درکار زرمبادلہ کے ذخائر ہیں جن کی کمی کے باعث دیوالیہ (ڈیفالٹ) ہونے کی افواہیں زیرگردش ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا اثر ادویات‘ طبی آلات اور علاج معالجے میں استعمال ہونے والی اشیا کی درآمدات پر بھی دیکھا جا سکتا ہے جو رفتہ رفتہ شدت اختیار کر رہا ہے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اگر ایکسرے‘ ’ایم آر آئی اُور خون کے تجزئیات میں اِستعمال ہونے والی مشینری‘ پُرزہ جات‘ ضروریات جیسا کہ اِیکسرے و ’ایم آرآئی‘ فلمیں و کیمیکلز کی وافر دستیابی نہ رہی تو کس طرح اِس کے منفی اثرات علاج معالجے کے شعبے کو متاثر کریں گے اور علاج معالجے کی خدمات کی قیمتیں کس بلندی پر جا پہنچیں گی۔ اِسی طرح گردوں کی صفائی (ڈائیلیسیز) بھی متاثر ہوگا جو بہت سے مریضوں کے لئے زندگی و موت کے انتخاب جیسا اہم ہے۔’آئی ایم ایف‘ کی جانب سے توسیع شدہ فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت 9 واں جائزہ مہینوں سے زیر التوا ہے۔ اِس جائزے میں اُن اِصلاحات اور اِصلاحات پر سنجیدگی سے عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے گا جو پاکستان حکومت کی جانب سے اپنی آمدن و اخراجات (بجٹ) کے درمیان فرق (خسارے) پر قابو پانے کے لئے کئے جا رہے ہیں۔ اصولاً سال کا یہ حصہ ’آئی ایم ایف‘ کے 10ویں جائزے کا ہوتا ہے لیکن ’آئی ایم ایف‘ کی شرائط پر پورا نہ اُترنے کی وجہ سے 9واں معاشی جائزہ جسے مؤخر کر دیا گیا تھا اب ہونے کی اُمید پیدا ہوئی ہے۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ ’آئی ایم ایف (فنڈ)‘ دونوں جائزوں کو ایک ساتھ مکمل کرنے پر اتفاق کر لے تو اِس کے نتیجے میں فوری راحت حاصل ہو سکتی ہے لیکن یہ ’راحت‘ بھی وقتی ہوگی کیونکہ پاکستان کے بنیادی معاشی مسائل حل کئے بغیر کسی بھی قرض دہندہ پر کلی (ہمیشگی) انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ ہر مرتبہ ’فنڈ‘ کی جانب سے قرض کی اقساط جاری ہونے کے بعد یہ صرف یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو عارضی طور پر مہلت مل جاتی ہے لیکن معیشت کی اصلاح کے وعدوں‘ دعوؤں اور عزائم کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاتا۔ یہ سُوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ’فنڈ‘ کی جانب سے 9 ویں جائزے کی بحالی کو اتنی دیر مؤخر کیوں کیا گیا جبکہ معاشی مشکلات عیاں تھیں؟ یہ عجیب صورتحال عام آدمی کی سمجھ بوجھ سے بالاتر ہے کہ ایک طرف یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہوگا۔ دوسری طرف درآمدات بند کر دی جاتی ہیں۔ معاشی و دیگر بحران کسی بھی درجے کے ہوں اُن کے حل کے لئے سب سے زیادہ اہمیت ”بروقت فیصلوں“ کی ہوتی ہے۔ ایک ایسی معاشی صورتحال میں جبکہ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 5.6 ارب ڈالر تک کم ہو چکے ہیں ’فنڈ‘ سے قرض حاصل کرنے کے عوض ”مشکل شرائط“ ماننا پڑیں گی۔ کیا آنے والے دنوں میں ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی ہوگی؟ انٹربینک اور اُوپن مارکیٹ میں کرنسی شرح مبادلہ کے درمیان قیمتوں کے فرق کو کم کیا جائے گا؟ غیرملکی پاکستانیوں کا اعتماد بحال ہوگا جو ترسیلات زر کے لئے بینکنگ کی بجائے ہنڈی حوالہ (گرے مارکیٹ) کا استعمال کر رہے ہیں؟ سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے گا؟ بیرون ملک پاکستانی اپنی بینکوں میں غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس رکھیں گے؟ پاکستان کے مالیاتی نظام میں جمع پونجی رکھنے کے حوالے سے خوف کم ہوگا؟ اور سب سے اہم کیا پاکستان پھر سے اِس قابل ہو جائے گا کہ وہ اپنی درآمدات بحال کر سکے؟’آئی ایم ایف‘ کی جانب سے ریویو مشن شروع کرنے کا فیصلہ ایسے ”نازک وقت“ میں سامنے آیا ہے جبکہ وزیر اعظم نے فنڈ کی منیجنگ ڈائریکٹر ’کرسٹالینا جارجیوا‘ کے ساتھ بات چیت کی ہے اور وہ اختلافات دور کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے جو ’آئی ایم ایف‘ کے واشنگٹن صدر دفتر (ہیڈکوارٹرز) اور پاکستان میں تعینات اِس کے مشن کے درمیان پائے جاتے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں سے یہ افواہیں زیرگردش رہی ہیں کہ ’فنڈ‘ کا کنٹری مشن پاکستان کی مشکل وقت میں مدد کرنے کا حامی نہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو یہی فنڈ اور پاکستان کے درمیان جائزہ مذاکرات کے تعطل کی وجہ ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے مطابق نویں جائزے کے لئے ’فنڈ‘ کی تمام شرائط کے مطابق تعمیل کر دی گئی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ’آئی ایم ایف‘ کی فیصلہ سازی پر امریکہ کا ناقابل تردید اثر و رسوخ ہے اور اِس صورتحال میں حکومت کو چاہئے کہ وہ اُن تمام ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائے جو دنیا کی اقتصادیات کنٹرول کر رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان پر قرضوں کا بوجھ اگر مزید بڑھایا جا رہا ہے تو اِس کے لئے بھی ہر خاص و عام پاکستانی کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے کہ بالآخر واپسی اُنہی نے کرنی ہے۔ اگر ہم ملک کے مرکزی بینک کی جانب سے زرمبادلہ ذخائر سے متعلق آخری دو بیانات کا موازنہ کریں‘ جن سے واضح ہے کہ حالیہ چند ہفتوں میں قرضوں کی ادائیگیوں کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں ساڑھے چوبیس کروڑ ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔ فی الوقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ لامحالہ موجودہ تکلیف دہ صورتحال میں پاکستان معاشی استحکام کا خواہاں ہے اور فنڈ سے کئے گئے اپنے وعدوں پر قائم بھی ہے جسے ماضی کی یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے قبول تو کیا لیکن اِنہیں عملی طور پر ایفا کرنے میں ناکام رہے۔ پہلی بات موجودہ سیاسی قیادت اپنے فرائض سے غافل نہیں۔ دوسری بات دنیا میں ہر شے کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے تو کیا وہ ساری معاشی اصلاحات جو دہائیوں سے زیرالتوأ ہیں‘ فوری طور پر (اِنتہائی مختصر وقت) میں لاگو کر دی جائیں گی اُور سخت گیر معاشی اصلاحاتی اقدامات (جن کا فوری نتیجہ مہنگائی میں مزید اضافے کی صورت ظاہر ہوگا) عام آدمی (ہم عوام) کی جیب پر بوجھ میں اِضافے کا باعث نہیں بنے گا؟