جدید دور کی کسی ریاست میں جمہوری نظام کے استحکام کے لئے وہاں کی سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت کو جانچا جاتا ہے۔اگر سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت ہے تو ملک میں جمہوریت مستحکم ہے۔ پاکستان سمیت اکثر ترقی پذیر اور نام نہاد جمہوری ملکوں میں برائے نام جمہوریت پائی جاتی ہے ہمارے ہاں کی سیاسی جماعتیں چند سیاسی خاندانوں کی ملکیت ہیں‘دادا یا نانا نے جو پارٹی بنائی ہے اسی خاندان میں پارٹی کی سربراہی نسل در نسل چلتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس فی الوقت ایک سو بیس سیاسی پارٹیاں رجسٹرڈ ہیں جن میں دینی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔تاہم سوائے جماعت اسلامی کے کسی سیاسی و مذہبی جماعت میں جمہوری طریقے سے انتخابات نہیں کرائے جاتے۔سیاسی پارٹیوں کے تمام اہم عہدے چند خاندانوں کے پاس ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کو پارٹی انتخابات کرانے کی تلقین کرتا ہے تو انتخابی اجلاس بلاکر عہدے تقسیم کئے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کبھی پنپ نہیں سکی اور بار بار غیر سیاسی قوتوں کو سیاسی معاملات میں مداخلت پر مجبور ہونا پڑا۔ ہمارا دیرینہ حریف بھارت اور پاکستان ایک ساتھ فرنگی حاکمیت سے آزاد ہوئے تھے۔‘ وہاں ایک معمولی شخص نے عام آدمی پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت بنائی اور ریاستی انتخابات میں انہوں نے کانگریس اور بی جے پی جیسی بڑی اور مضبوط سیاسی جماعتوں کو ناکوں چنے چبوادیئے۔حال ہی میں سڑکوں پر جھاڑو دینے والی ایک خاتون دلی شہر کی ڈپٹی میئر منتخب ہوئی ہے۔ چنتا دیوی کہتی ہیں کہ ایک بار میونسپلٹی والے آئے اور ان کی اور دوسرے سبزی والوں کی ٹوکریوں کو اپنے کچرے کے ٹرک میں ڈال دیا لیکن اس کے باوجود بھی ان سبزی والوں میں آواز اٹھانے کی ہمت نہیں تھی۔میں نے اپنی ٹوکری اتاری اور ساتھ میں دوسروں کی ٹوکریاں بھی لے کر آئی۔ اس کے بعد سب نے مجھے الیکشن لڑنے کی ترغیب دی۔جنتا دیوی کے پاس الیکشن لڑنے کے وسائل نہیں تھے۔ لوگوں نے اسے حوصلہ دیا کہ آپ لڑیں، ہم چندہ کریں گے آپ کے لئے‘جنتا دیوی کا کہنا ہے کہ وہ عوام کی جتنی خدمت کرسکتی تھی‘ انہوں نے خدمت سے کبھی عار نہیں کیا۔چونکہ ہمارے ہاں اقتدار کی کرسی اور فیصلہ سازی کے اداروں میں بیٹھے افراد کا تعلق خاص اور مراعات یافتہ طبقے سے ہے اس لئے وہ عام آدمی کے مسائل کو نہیں سمجھ پاتے۔ملک کے ایوانوں میں انتخابات کے نتیجے میں چہرے تو بدلتے رہتے ہیں مگر پالیسیاں وہی جاری رہتی ہیں اور پالیسیوں کا محور مراعات یافتہ طبقے کے مفادات کا تحفظ ہوتاہے۔یہ بات طے ہے کہ جب تک ہمارے ہاں حقیقی جمہوریت نہیں آتی اور ہماری سیاسی پارٹیاں جمہوری قدروں پر عمل نہیں کرتیں۔ چہرے بدلنے سے عوام کو کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں ہے۔اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہمارے ہاں جمہوریت نے وقت گزرنے کے ساتھ کوئی مثبت تبدیلی نہیں اپنائی بلکہ اس حوالے سے یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ جمہوری طریقوں سے حکومتوں کی تبدیلی کا سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے جس سے عوام کا انتخابی عمل پر اعتماد بڑھا ہے اور جمہوری رویوں میں استحکام آیا ہے۔