وزیر اعلی محمود خان کا کہنا ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت کے اصلاحاتی اقدامات کی بدولت عوام کا سرکاری تعلیمی اداروں پر اعتماد بحال ہواہے۔ ہم نے اقتدار میں آتے ہی تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جس کی بدولت خیبرپختونخوا میں شرح خواندگی میں اضافہ ہوا ہے۔سرکاری سکولوں میں سہولیات کی فراہمی سے درس و تدریس کے معیار میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ ایجوکیشن مانٹیرنگ اتھارٹی کا قیام، 58 ہزار اساتذہ کی مستقلی،چھ لاکھ سے زائد طلبہ کو درسی کتب اور سکول بیگز کی فراہمی، 174 سکولوں کی اپ گریڈیشن، چار ماڈل سکولز کی تعمیر،89 سکولوں کی تعمیر نو، 141 سکولوں کا قیام،سرکاری سکولوں میں 400 اضافی کمروں کی تعمیراور 1585 کمروں کی مرمت، 21 لاکھ بچیوں کو وظائف کی فراہمی، تین ارب روپے کی لاگت سے 68141 یونٹس کو فرنیچر کی فراہمی، کیڈٹ کالج سپین کئی جنوبی وزیرستان اور کیڈٹ کالج مامد گٹ ضلع مہمند کی تعمیر، تقریباً 300 ہزار سکول لیڈرز کی بھرتی، بچوں کو سکول میں داخل کروانے کیلئے انرولمنٹ کمپین کا انعقاد، سرکاری سکولوں میں سیکنڈ شفٹ کا اجرا تعلیمی ایمرجنسی میں شامل ہیں۔ثانوی تعلیم کے ساتھ اعلی تعلیم کے شعبے میں بھی خاطر خواہ اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں نئی یونیورسٹیز کا قیام، پہلے سے قائم یونیورسٹیز میں نئے شعبہ جات کا قیام اورنئے کالجز کی تعمیر شامل ہیں۔رواں صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شعبہ اعلی تعلیم کے 89 منصوبے شامل کئے گئے ہیں جن میں 66 جاری اور23 نئے منصوبے ہیں۔ گزشتہ چار سالوں کے دوران پاک آسٹریا فخا شولے انسٹیٹوٹ کا قیام، یونیورسٹی آف شانگلہ کا قیام، زرعی یونیورسٹی سوات کا قیام، ویٹرنری یونیورسٹی کا قیام، جامعہ پشاور میں انسٹیٹوٹ آف کریمنالوجی اینڈ فرانزک سائنسز کا قیام، زرعی یونیورسٹی پشاور میں ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ سنٹر کا قیام، 1900 لیکچررز کی بھرتی، مختلف کالجز میں بی ایس پروگرام کااجراء اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لئے اہم اقدامات ہیں۔پاکستان تحریک انصاف نے اقتدار میں آتے ہی تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اہم اصلاحات کی ہیں۔بھوت سکولوں اور بھوت اساتذہ کا خاتمہ کردیا گیا۔ تعلیمی اداروں میں بائیومیٹرک حاضری کا نظام رائج کرنے اور ایجوکیشن مانیٹرنگ کے نظام کی بدولت سٹاف کی حاضری یقینی بنائی گئی۔تاہم ان تمام اقدامات کے باوجود سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار ہنوز بہتر بنانے کی گنجائش موجود ہے۔ اساتذہ کی جدید تدریسی تقاضوں کے مطابق تربیت کا موثر انتظام اس ضمن میں اہم ہے۔ سکولوں میں جسمانی سزاؤں کا نظام آج بھی رائج ہے جس کی وجہ سے بچوں کے سکول چھوڑنے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے تدریسی سٹاف کو این ٹی ایس ٹیسٹ کی مشین سے گزار کر ان کی کارکردگی جانچنے کا فیصلہ کیا تھا۔ نہ جانے کیوں یہ اہم فیصلہ موخر کردیا گیا۔ قوم کی تقدیر اگر بدلنی ہے تو وہ نظام تعلیم میں انقلابی اقدامات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کو اپنے منشور کے مطابق تعلیمی اصلاحات کے لئے مزید سخت اقدامات اور بعض مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔پرائمری تعلیم کا معیار بہتر بنانے پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے اگر قوموں کی برادری میں اپنا مقام بنانا ہے تو تعلیم و تحقیق کو ترجیحات میں سب سے مقدم رکھنا ہوگا۔جہاں تک پرائمری تعلیم کا تعلق ہے تو یہ وہ بنیاد ہے جس پر آگے جا کر تعلیمی ڈھانچہ کھڑا ہوتا ہے اگر یہاں سے بچے کی شخصیت سازی کا عمل پورا ہو تو آگے جا کر وہ کامیابیاں سمیٹا ہے۔