درپیش مسائل

پاکستان کو مہنگائی اور غذائی قلت کا سامنا ہے جس کے داخلی و خارجی محرکات اِس وجہ سے پریشان کن ہیں کہ صورتحال کو معمول پر لانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو رہیں اور اِس غیراعلانیہ ہنگامی حالات سے نمٹنے میں صوبائی حکومتوں نے وفاق سے مدد مانگ لی ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب سے متاثرہ لاکھوں بچے کو بھوک‘ بیماریوں اور موت جیسے انتہائی خطرات خطرہ لاحق ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جون کے وسط سے اکتوبر تک پاکستان میں مون سون سیزن میں ہوئی زیادہ بارشوں کے نتیجے میں کم از کم 1739 افراد ہلاک ہوئے جن میں 647 بچے بھی شامل تھے۔ اقوام متحدہ کے ”انٹرنیشنل چلڈرن ایمرجنسی فنڈ“ کا کہنا ہے کہ اگرچہ سیلابی ریلا گزرے تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ”40 لاکھ“ سے زیادہ بچے اب بھی آلودہ اور جمے ہوئے (گاڑھے) سیلابی پانی (کیچڑ) کے قریب زندگی بسر کر رہے ہیں اور ایسے ہی حالات سے دوچار ایک کروڑ بچوں کو فوری طور پر مدد کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں یونیسف کے نمائندے عبداللہ فاضل نے جاری کردہ پیغام میں کہا گیا ہے کہ ”سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والے بچے تباہی کے دہانے پر ہیں اُور اگرچہ بارش ختم ہو چکی ہے لیکن پاکستان کی 15 فیصدی سیلاب متاثرین آبادی کے لئے بحران ابھی ختم نہیں ہوا۔“پاکستان کو درپیش مشکلات کا تعلق خارجی محرکات سے بھی ہے۔ گذشتہ سال سے زیادہ تر غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافے ہو رہا ہے جو روس یوکرین جنگ کی وجہ سے طلب و رسد کے درمیان فرق (رکاوٹ) کی وجہ سے ہے اور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ کئی ایک ممالک میں غذائی اجناس کی قلت ہے۔ اقوام متحدہ کی ’فوڈ ایجنسی‘ کے مطابق دنیا بھر میں اجناس کی اوسط قیمت ریکارڈ بلند ترین سطح پر ہے۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کا فوڈ پرائس انڈیکس جو عالمی سطح پر سب سے زیادہ تجارت کی جانے والی غذائی اجناس کی بین الاقوامی قیمتوں پر نظر رکھتا ہے سال دوہزاربائیس میں اوسطا 143۔7پوائنٹس تھا جو سال دوہزاراکیس کے مقابلے میں 14۔3فیصد زیادہ تھا۔ عالمی معیشت کے کورونا وبائی مرض کے اثرات سے صحت یاب ہونے کے بعد دوہزاراکیس میں مذکورہ انڈیکس میں گزشتہ سال کے مقابلے میں اٹھائیس فیصد اضافہ ہوا تھا۔ اِسی طرح فروری دوہزاراکیس میں روس یوکرائن جنگ کے بعد خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا کیونکہ بحیرہ اسود کے راستے تجارت متاثر ہوئی۔پاکستان میں صرف غذائی اجناس ہی نہیں بلکہ توانائی (بجلی و گیس) کی بھی کمی ہے۔ قدرتی گیس کا موجودہ بحران پاکستان کی تاریخ کا شدید بحران ہے جس کی شدت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بہت سے صارفین کو کھانا پکانے کے اوقات میں بھی گیس کی فراہمی ممکن نہیں ہو پا رہی۔ یہ بحران‘ جو اگلے چند مہینوں میں ختم نہیں ہوگا‘ غذائی افراط زر کو بڑھا رہا ہے اور جب تک بجلی و گیس بحران رہے گا اِس کے اثرات مہنگائی میں اضافے کی صورت ظاہر ہوتے رہیں گے کیونکہ پکا ہوا کھانا پینا دن بہ دن مہنگا ہوتا جارہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہوٹلوں کو ایندھن پر زیادہ اخراجات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں کیونکہ اُنہیں سلنڈرز میں بھری گیس استعمال کرنا پڑتی ہے۔ سردیوں کے دوران بجلی کا بحران ناقابل یقین ہے۔ بازاروں‘ شاپنگ مراکز اور شادی ہالوں کے اوقات کم کر دیئے گئے ہیں۔ گیس اور بجلی کے بحران کی جڑ میں توانائی کے شعبے کے گردشی قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم ہے جسے ختم کرنا کسی ایک حکومت کے بس کی بات نہیں کیونکہ اِس سے ادارہ جاتی اصلاحات جڑی ہوئی ہیں۔ بجلی کی قلت اُور ایندھن (گیس) کی زیادہ قیمتیں مل کر (ایک سال پہلے کے مقابلے میں) بھی پیداوار‘ نقل و حمل‘ مارکیٹنگ اور کھانے پینے یا غیر غذائی اشیا کی مارکیٹنگ کی لاگت میں اضافے کا باعث ہے اور مجموعی طور پر یہ سبھی محرکات مل کر افراط زر (مہنگائی) کو فروغ دے رہے ہیں۔ معیشت میں عام افراط زر کے دباؤ کے درمیان (دسمبر دوہزاراکیس میں 12۔3فیصد کے مقابلے میں دسمبر 2022ء میں اجناس کی قیمتوں میں ساڑھے چوبیس فیصد اضافہ ہوا تھا)۔ لمحہ فکریہ ہے کہ اب تک غذائی افراط زر پر قابو پانے کی جملہ کوششیں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔