کوا ہنس کی چال چلا اور اپنی چال بھی بھول گیا‘ اِس محاورے کا عملاً اطلاق پاکستان میں درس و تدریس کے لئے انگریزی زبان پر حد سے زیادہ انحصار کی صورت دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح بچوں کو اِن کی مادری زبان سے اور اِن کی قومی زبان سے‘ دور کر کے انگریزی (انگلش) زبان سے مانوس (نزدیک) کیا جا رہا ہے جبکہ یہ عمل دانشوری اور تعلیمی دور اندیشی سے سراسر خالی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ انگریزی ایک مضمون کے طور پر پڑھائی جانی چاہئے لیکن ایک زبان کی طرح نہیں۔ کسی زبان کو قابل فخر بنا کر پیش کرنے کی بھی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے اور فیصلہ سازوں کو سمجھنا چاہئے کہ کسی بھی زبان کو بطور مضمون اور بطور زبان پڑھانا ایک بات نہیں بلکہ یہ دو الگ الگ نقطہ ہائے نظر ہیں‘ پاکستان کے نظام تعلیم کو جدید اصولوں کے مطابق مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں روایتی امتحانی نظام کے مقابلے میں کیمبرج سسٹم کے تحت انگریزی کو بطور زبان سکھایا جاتا ہے۔ کیمبرج سسٹم میں مضامین کے جملوں کو حرف بہ حرف زبانی یاد کرنے کی بجائے مضامین لکھنے کے تصورات سے آشنائی کروائی جاتی ہے جس سے طالب علموں کی تخلیقی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور انہیں اپنے طور پر مضامین لکھنے کی تربیت و حوصلہ افزائی دی جاتی ہے جبکہ روایتی نظام تعلیم میں‘ طالبعلموں کو دیئے گئے محاوروں یا محاوروں پر کہانیاں لکھنے کیلئے کہا جاتا ہے۔ اساتذہ انہیں طوطے کی ”ریڈی میڈ کہانیاں“ بناتے ہیں جو زیادہ تر افسانوی ہوتی ہیں جبکہ اِس کے برعکس‘ کیمبرج کے طالب علم اپنے مشاہدات‘ تجربات اور تخیل کی بنیاد پر کہانیاں
لکھتے ہیں۔ کیا اِن دونوں نظام تعلیم (کیمبرج اور روایتی) کے طلبہ کی استعداد کی جانچ ایک ہی پیمانے سے ہونی چاہئے؟ روایتی تعلیمی نظام میں طلبہ یونیورسٹی کی سطح پر خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ انہیں ابتدائی کلاسزمیں کسی بھی زبان پر عبور نہیں سکھایا جاتا۔ روایتی نظام میں نصاب کو بوجھل بنا دیا گیا ہے جس میں طلبہ نصاب کے علاوہ دیگر کتب یا اخبارات اور سوشل میڈیا سے استفادہ نہیں کرتے۔ اسکے علاوہ روایتی نظام میں کسی سوال کا وہی جواب‘ حرف بہ حرف لکھنا ہوتا ہے جو نصابی کتب میں درج ہو اِس پابندی کی وجہ سے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما نہیں ہوتی اور وہ کسی مضمون کے دائرے سے باہر نکل کر سوچنے سمجھنے اور اپنے خیالات کو بیان کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ طالب علموں کو مناسب زبان کی مہارت سکھانے کیلئے‘ علم و ہنر کے شعبوں اور بیان میں اعداد و شمار کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دینی چاہئے۔ طالب علموں کو ابتدائی سطح تک صرف گرائمر اور دو لسانی ترجمہ سکھایا جانا چاہئے جبکہ تحریر ثانوی اور اعلی ثانوی سطح پر تعلیم کا حصہ ہونا چاہئے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ نظام تعلیم ایسا ہونا چاہئے جس میں لکھنا
تنقیدی سوچ کو اُجاگر کرے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ٹائپنگ کے برعکس ہاتھ سے لکھنا زیادہ بہتر ہوتا ہے کیونکہ اِس میں زیادہ جسمانی مشقت شامل ہوتی ہیں اور بچوں میں توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت میں غیر معمولی طور پر بہتری آتی ہے۔ نئے نظام تعلیم میں لکھنے کی بجائے ’ٹائپنگ‘ کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ ہاتھ اور قلم کی مدد سے لکھنا زیادہ پختہ عمل ہے کیونکہ کوئی ایک جملہ لکھتے ہوئے ہاتھ ہر حروف تہجی کی ساخت کے ساتھ آگے بڑھتا ہے یوں الفاظ کا ساختی فرق ذہن نشین ہوتا چلا جاتا ہے جبکہ اِس کے مقابلے ٹائپنگ میں کئی الفاظ خودکار طریقے سے درست ہوتے چلے جاتے ہیں اور ذہن ایک آسانی سے مانوس ہونے کے بعد الفاظ کے درمیان ’ساختی فرق‘ کو پہلی ترجیح نہیں رکھتا۔ اِن پہلوؤں کو ذہن میں رکھتے ہوئے‘ قلم سے لکھنے کی سرگرمیوں اور مشقوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ جو طلبہ ٹائپنگ کے عادی ہو چکے ہیں وہ ہر روز کم سے کم تیس منٹ ہاتھ سے لکھنے کی مشق کریں۔ قلم اور ہاتھ کی مدد سے لکھنے میں فرق یہ بھی ہے کہ لکھاری اپنے گردوپیش سے بے نیاز ہو کر الفاظ اور معانی کی دنیا میں گم ہو جاتا ہے۔ تعلیم کے ساتھ طلبہ کی ذہن سازی کی بھی ضرورت ہے جس کیلئے اساتذہ کی تربیت کا اہتمام ہونا چاہئے جو انگریزی کے بطور مضمون اور بطور زبان میں فرق نہیں کر پا رہے اور جنہیں قلم و ہاتھ کی مدد سے لکھنے اور ٹائپنگ میں بھی کچھ فرق محسوس نہیں ہو رہا جبکہ یہ دونوں محرکات ایک دوسرے کے متضاد ہیں اور اِن کی وجہ سے ذہانت کا خون ہو رہا ہے اور اکثر وقت و دماغ کا ضیاع ہو رہا ہے۔