چندروز قبل ایک معتبر سیاسی رہنما کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر دلچسپ مکالمہ ہوا وہ ملک کی موجودہ صورت حال اور بااثر قوتوں کی مداخلت کومیڈیا کے کھاتے میں ڈا ل رہے تھے ان کاکہناتھاکہ میڈیا نے اس حوالہ سے اپنا کردار کبھی بھی درست طریقے سے ادا نہیں کیا ان کاگلہ تھاکہ جب ان کی جماعت نے چند سال قبل دھرنے دیئے تھے تو میڈیا پر اس کابلیک آؤٹ کرایاگیاتھا ہمارا استدلال تھاکہ میڈیا کی کمزوریاں اور مجبوریاں اپنی جگہ مگر جب موجودہ دور میں پی ٹی آئی کے جلسوں ا وردھرنوں کا بلیک آؤٹ کرایا گیا تو آپ کی جماعت کامؤقف کیاتھا اور وہ اس پر خاموش کیوں تھی جس پر وہ مسکرا اٹھے اور آخرکاراتفاق اس بات پرہواکہ سیاست کے زوال میں میڈ یا کے ساتھ ساتھ خودسیاسی قوتوں کا بھی اچھا خاصا کردارہے ان کو توہم نے قائل کرلیا کہ سیاستدانوں کی کمزوریوں کی وجہ سے غیر جمہوری قوتیں فائدہ اٹھاتی ہیں اور مسائل میں اضافہ ہوتاہے مگر سوال یہ ہے کہ اجتماعی طورپر یہ نکتہ سیاسی قیادت کو کیوں سمجھ نہیں آتا؟یاپھروہ مخصوص مفاداتی سیاست کی وجہ سے سمجھوتہ کیے بیٹھے ہیں یوں سیاست ایک بوجھ بنتی جارہی ہے اورسیاسی قوتیں خود کو عام لوگوں کی نگاہوں میں سوالیہ نشان بناتی جارہی ہیں اس سے بڑھ کر بدقسمتی اورکیاہوگی کہ اب ہمارے ہاں سنجیدہ اور فوری توجہ طلب امور (ایشوز)کو بھی سیاست کی نذرکیاجانے لگاہے زیادہ دو ر جانے کی ضرورت نہیں مہنگائی کی حالیہ بدترین لہر کو ہی دیکھ لیں ملک کی وہ تمام بڑی جماعتیں جو اس وقت وفاق اور صوبوں میں برسراقتدارہیں نہ صرف ایک دوسرے پر اس کی ذمہ ڈال رہی ہیں بلکہ اس کے خلاف مید ان میں بھی نکلی ہوئی ہیں خیبرپختونخوا میں گذشتہ نو سال سے برسر اقتدارپاکستان تحریک انصاف کی طرف سے چوک یادگار میں مہنگائی کے خلاف دس روزہ احتجاجی کیمپ لگاہواہے جس کے بعد مرکزی حکومت میں اہم حصہ دار جمعیت علمائے اسلام بھی مہنگائی کے خلاف میدان میں نکل آئی ہے ان دونوں کی دیکھا دیکھی اے این پی نے بھی پیچھے رہنا گوارہ نہیں کیا اور لگے ہاتھوں نے اس نے بھی ایک عدد ا حتجاجی مہم کااعلان کردیا اب دیکھنایہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو کب پتہ چلتاہے کہ ملک میں مہنگائی ہے اوروہ کب میدان میں نکلتی ہیں اٹھارہویں ترمیم کے بعد سے مہنگائی کے خلاف اقدامات صوبائی حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے تاہم اشیائے خوردونوش کی سمگلنگ کو روکنا تو وفاق کاکام ہے گویا اگر اس وقت ملک میں گند م اور آٹے کی قلت ہے تو کسی نہ کسی طرح سے اس صورت حال کی ذمہ داری سوائے جماعت اسلامی کے باقی تمام بڑی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے پی ٹی آئی اور ق لیگ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں برسر اقتدار ہیں پیپلزپارٹی مرکز اور سندھ میں حکومت کے مزے لینے میں مصروف ہے ن لیگ مرکزی حکومت کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالے ہوئے ہے اے این پی مرکزی حکومت کی حمایتی اور بلوچستان میں شریک اقتدار جماعت ہے تو سوال یہ پیداہوتاہے کہ پھریہ جماعتیں احتجاج کس کے خلاف کررہی ہیں؟ شروع میں جس طرح کہاگیاکہ سیاست میں سنجیدگی کاعنصر غائب ہوتاجارہاہے موجودہ صورتحال اسی کابہت بڑا ثبوت ہے بجائے اس کے کہ تمام جماعتیں کم سے کم مہنگائی کے خاتمہ کے ایک نکاتی ہنگامی ایجنڈے پر بیٹھ کر لائحہ عمل وضع کرتیں اور فوری اقدامات کے ذریعہ رلتے لوگوں کے دکھوں کامداوا کرنے کی کوشش کرتیں مہنگائی کے ایشو پر سیاست کھیلنے کا سلسلہ شروع کردیا افسوس ہوتاہے کہ موجودہ دور میں اس قدر ترقی کے باوجود وسائل اور سرکاری عمل کی فوج ظفر موج کے باوجود بھی مہنگائی کاجن کسی کے قابو میں ہیں آرہاہے اسی سرزمین پر کوئی گیارہ سوبرس قبل ایک حکمران نے شاندار مثالیں چھوڑ ی ہیں علاؤ الدین خلجی نے اپنے اقتدار کے تیسرے سال ایک منصوبہ تیارکیا کہ ا س کی رعایا کے ہر فرد کی ابتدائی ضرورتیں آسانی سے پوری ہوسکیں رعایا میں ایک قسم کی معاشی ابتدائی مساوات قائم ہو کوئی ذخیرہ اندوزی،رشوت،بے ضابطگی زندگی کے کسی شعبہ میں دکھائی نہ دے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے علاؤالدین خلجی نے اعلان کیاکہ آئندہ نرخ بادشاہ کی طرف سے مقرر ہونگے صر ف سرکار غلہ ذخیرہ کرے گی جن منڈیوں میں اناج بکنے کے لئے آئے گا ان کی نگرانی نیک اور مستعد سرکاری عمال کے سپرد ہوگی اور کسی قسم کی رورعایت نہیں ہوگی ہرمنڈ ی اورہر بازار میں تاجرا ن غلہ کی نگرانی کے لئے ایک دفتر قائم کیاجائے گا اس کے فوری بعد علاؤالدین نے اعلان کیاکہ کسی بھی زمیند ار،جاگیرداریا کاشتکار کے پاس دس من سے زائد غلہ ذخیرہ نہ ہو زمین دار ہر فصل پر دس من سے زائد غلہ تاجروں کے پاس سرکاری نگرانی میں سرکاری نرخوں پرفروخت کریں جتنا غلہ سوداگر منڈی تک لائیں اورجتنا فروخت ہو اس کی تفصیل سرکاری حکام بادشاہ کو دیتے رہیں کہتے ہیں کہ علاؤالدین کے اس حکم پر پوری مملکت میں اس سختی کے ساتھ عمل ہواکہ کسی ایک جگہ بھی نہ توذخیرہ اندوزی ہوسکی نہ ہی خفیہ تجارت(سمگلنگ) کو فروغ ملا بادشاہ نے اس سلسلہ میں ایسی سخت سزائیں تجویز کیں کہ تاجر اور جاگیردار ان سزاؤں کے تصورسے ہی لرز اٹھے بھوک سب سے بڑا گناہ اور سب سے بڑی لعنت ہے تاریخ دانوں کے مطابق علاؤالدین نے ہندوستان کے عوام کو اس لعنت سے محفوظ کردیا اور ایسے نرخ متعین کردیئے کہ جو عام لوگ آسانی سے ادا کرسکتے تھے اس امر کویقینی بنایاگیا کہ کسی علاقہ کے غلے کے تاجر اپنا خریدا ہوا غلہ منڈی سے باہر بیچنے یا ذخیرہ نہ کرنے پائیں ہرجگہ کے تاجروں کے گلوں میں طوق اورپاؤں میں اس وقت تک بیڑیاں پہنائی گئیں جب تک سب نے مل کر اپنااپناغلہ منڈ ی میں لانے کاپختہ اقرارنہ کرلیااس سختی کایہ نتیجہ نکلا کہ تاجران غلہ خریدتے ہی منڈی میں لے آتے شہروں کے ساتھ ساتھ قصبات میں بھی سرکاری ذخیرے قائم کیے گئے تاکہ اگر کسی وقت بازار کانرخ چڑھنے لگے تو سرکاری ذخیرے بازار میں آجائیں اورنرخ بڑھنے نہ پائے علاؤالدین نے صورت حال پر نظر رکھنے کے لئے بھی عمدہ نظام قائم کیا اسے منڈی کے نگرانوں خفیہ اداروں اور خود آڑھتیوں کی طرف سے رپورٹیں ملتیں وہ ان کاموازنہ کرتااورفرق پر جواب طلبی ہوتی گیارہ سو برس قبل اگر اس طرح کافول پروف نظام قائم کیاگیاتھا تو اس کے پیچھے اس وقت کے حکمرانوں کی سنجیدگی اور کمٹمنٹ تھی مگرافسوس کہ سرکاری افسران کی فوج ظفر موج کروڑوں کی گاڑیاں اور مراعات کے باوجود آج لوگ ایک تھیلی آٹے کے لئے زندگی سے ہی گزر جانے پر مجبور ہیں کیا اب وقت نہیں آگیاکہ بھوک اور غربت سے پاکستانیوں کو محفوظ کرنے کیلئے گیارہ سو سالہ قدیم فارمولے پرہی عمل کیاجائے۔