قوت ِخرید‘ مہنگائی اور نئی قیمتیں 

بات مہنگائی کی نہیں بلکہ ہر دن کم ہوتی ’قوت ِخرید‘ کی ہے جس کے باعث پیدا ہونے والی معاشی مشکلات کے باعث عام آدمی (ہم عوام) کے لئے کھانے پینے جیسی بنیادی ضروریات کا حصول آسان نہیں رہا اور اِس صورتحال سے بالخصوص تنخواہ دار طبقہ زیادہ متاثر دکھائی دیتا ہے جس کے لئے ’گھریلو بجٹ‘ بنانا یعنی آمدن و اخراجات میں توازن برقرار رکھنا جو پہلے ہی دشوار تھا اب تو ناممکن حد تک دشوار ہو گیا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ ہر سال اِنہی دنوں میں خوردنی اجناس کی مصنوعی قلت پیدا ہوتی ہے جس کے باعث قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے اور یہ بات تقریباً معمول ہی بن گئی ہے کہ گندم کی نئی فصل آنے تک تین سے چار ماہ آٹے‘ مرغی‘ انڈوں اور پھل و سبزی کی قیمتوں میں ردوبدل ہوتا ہے۔ پشاور کی ہول سیل مارکیٹ میں مرغی کی قیمت تیرہ ہزار روپے فی چالیس کلو سے بڑھ کر ساڑھے چودہ اور پھر پندرہ ہزار روپے فی چالیس کلوگرام تک جا پہنچی جس کی وجہ سے مرغی کی پرچون (ریٹیل) قیمت ساڑھے تین سو روپے فی کلوگرام سے شروع ہو کر چارسو بیس روپے فی کلوگرام کی حد عبور کر گئی اور مرغی کا گوشت جو چند روز قبل تک پانچ سو روپے فی کلوگرام تھا اچانک چھ سو اَسی روپے فی کلوگرام فروخت ہونے لگا۔ یہی صورتحال انڈوں کی بھی رہی جن کی قیمت سات ہزار آٹھ سو اَسی روپے فی کارٹن سے بڑھ کر آٹھ ہزار دو سو روپے فی کارٹن ہوگئی جبکہ ریٹیل میں انڈے 275 روپے فی درجن سے بڑھ کر تین سو روپے فی درجن کی حد عبور کر گئے۔ مہنگائی کی یہ صورتحال جس عوامی سطح پر زیربحث ہے اُس کا بنیادی نکتہ ’گندم کے آٹے‘ کی قیمتیں ہیں۔ ایک موقع پر ہول سیل میں بہترین معیار کا گندم کا آٹا 1880روپے کے مقابلے میں 2300 روپے فی پندرہ کلو گرام جبکہ ریٹیل میں 2330 روپے سے 2350 روپے فی 15 کلو گرام میں فروخت ہونے لگا اُور پھر یہ قیمتیں کم نہیں ہوئیں بلکہ بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ ہول سیل مارکیٹ میں عام معیار کے آٹے کا تھیلا جو کہ 1860 روپے تھا بڑھ کر 2250 اُور 2300 روپے میں فروخت ہونے لگا جو ریٹیل میں 2280 سے 2300 روپے تک جا پہنچا۔ باورچی خانے کی دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا تاہم اِس سلسلے میں ملا جلا رجحان دیکھا گیا کیونکہ زیادہ تر سبزی‘ پاؤڈر مرچ اور چاول کی قیمتوں میں کمی دیکھی گئی جبکہ دالیں‘ پیک شدہ دودھ‘ مصالحہ جات‘ تازہ دودھ اور ہلدی کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن نہانے والے صابن‘ جوتوں کی پالش‘ شیمپو‘ ماچس اور روزمرہ استعمال کی دیگر کئی ایک اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ 
مہنگائی کی اِس صورتحال کا عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) نے بھی نوٹس لیا ہے۔ آٹے اور دیگر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ کیوں ہوا؟ اِس سلسلے میں وفاقی اور خیبر پختونخوا حکومتوں کے متعلقہ حکام کو طلب کیا گیا ہے‘ جس سے خیر کی توقع ہے۔ چیف جسٹس قیصر رشید خان اور جسٹس اعجاز انور پر مشتمل دو رکنی بینچ نے استفسار کیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کے تئیں اپنی ذمہ داریاں کیوں پوری نہیں کر رہیں؟ بینچ نے معمول کے مقدمات کی سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں موجود وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لأ افسران کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ متعلقہ افسران مہنگائی کی جاری لہر کے حوالے سے کیا کر رہے ہیں؟ بنچ نے لأ افسروں کو ہدایت دی کہ وہ تمام متعلقہ افسروں کو بنچ کے سامنے پیش کریں اور وہ مہنگائی سے متعلق اپنے اپنے مؤقف کی وضاحت کریں۔
 چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک طرف غریب عوام قدرتی گیس کی عدم دستیابی کی شکایت کر رہے ہیں تو دوسری طرف گندم کے آٹے‘ خوردنی تیل اور گھی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
 پشاور ہائی کورٹ میں موصول ہونے والی ایک درخواست پر ’فوری کاروائی‘ کی گئی ہے جس میں درخواست گزار نے چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا کو صوبے میں گندم اور آٹے کی ترسیل و فروخت کے عمل کو کنٹرول کرنے اور مقامی مارکیٹ میں غیر معیاری آٹے کی فراہمی روکنے کی استدعا کر رکھی ہے۔ پشاور کے علاقے ارمڑ کے رہائشی حسیب اللہ کی جانب سے ایڈووکیٹ دانیال خان چمکنی کی وساطت سے دائر درخواست (پرو بونو پٹیشن) میں دعویٰ کیا گیا کہ پشاور میں آٹے کا بیس کلو گرام کا تھیلا 3300 روپے میں دستیاب ہے جو ایک عام آدمی (ہم عوام) کی پہنچ (قوت ِخرید) سے زیادہ ہے۔ درخواست گزار نے عدالت سے عبوری ریلیف کی استدعا کرتے ہوئے استدعا کی ہے کہ درخواست کے حتمی فیصلے تک حکومت کو گندم کا آٹا افغانستان برآمد کرنے اور منتقل کرنے سے روکا جائے علاؤہ ازیں صوبائی حکومت کے گندم ذخیرہ کرنے والے گوداموں کو ضلعی انتظامیہ کے حوالے کرنے کا حکم دیا جائے تاکہ عوام کو کنٹرول ریٹ پر گندم اور آٹے کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔ ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا کے لئے گندم کی سالانہ ضرورت 48لاکھ ٹن ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں گندم کی پیداوار (حکومتی اعداد و شمار کے مطابق) 12لاکھ ٹن ہے اور باقی ماندہ گندم پنجاب و سندھ سے خریدی (حاصل کی) جاتی ہے۔ گندم کی قلت گزشتہ سال (دوہزار بائیس کے) ماہئ اکتوبر میں بھی اُس وقت دیکھی گئی تھی جب پنجاب حکومت نے خیبرپختونخوا کے لئے گندم کے آٹے کی نقل و حمل پر پابندی عائد کر دی تھی اور اچانک اوپن مارکیٹ میں گندم و آٹے کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوا تھا اور مذکورہ اجناس کی قیمتیں بڑھنے کا یہی محرک آج بھی ہے۔ دوسری طرف وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ (وفاقی ادارے) نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں گندم کی کوئی قلت نہیں اور صوبوں کے پاس وافر مقدار میں گندم موجود ہے لیکن یہ گندم فلور ملز مالکان کو جاری نہیں کی جا رہی۔ اٹھارویں آئینی ترمیم (اپریل دوہزاردس) کے بعد سے زرعی اجناس کی قیمتیں مقرر کرنا صوبوں کی ذمہ داری ہے جو کسانوں سے کم از کم امدادی قیمت پر گندم خریدتے ہیں۔