پشاور کہانی: طرح طرح کے معمے

پشاور کے مختلف سماجی و کاروباری حلقے پانی کی قیمتوں میں مجوزہ اضافے پر ناپسندیدگی کا اظہار کر رہے ہیں بالخصوص تاجروں نے آبنوشی قیمتوں میں مجوزہ اضافے کو مسترد کرتے ہوئے متعلقہ فیصلہ سازوں پر زور دیا کہ وہ معاشی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے صوبائی دارالحکومت کے تجارتی صارفین کے لئے نرخنامے (ٹیرف) کو ”معقول“ بنائیں اور اِس سلسلے میں جو بھی ردوبدل مقصود ہے وہ کاروباری طبقات سے بات چیت کے بعد طے ہونا چاہئے۔ تاجر تنظیموں کے نمائندوں نے اس بات پر زور دیا کہ پانی کے نرخوں میں اضافے کا بوجھ بہرحال عام آدمی کو منتقل ہو گا جن کے لئے پہلے ہی مہنگائی کی شرح ناقابل برداشت ہے۔ دوسری طرف محکمہ بلدیات نے پانی کے چارجز پر نظرثانی کرنے کے لئے سماعت مقرر کی ہے اور ایک عوامی نوٹس جاری کیا ہے۔ سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے عہدیداروں‘ تاجروں اور صنعتکاروں کے نمائندوں نے مختلف شعبوں بشمول کاروباری اداروں کے لئے مشتہر کردہ مجوزہ واٹر چارجز کو منطقی شکل دینے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ”پانچ مرلے کے گھروں کے لئے انتہائی غیر حقیقی پانی کے چارجز تجویز کئے گئے ہیں جبکہ شادی ہالز‘ ریسٹورانٹس‘ عوامی بیت الخلأ‘ فلنگ سٹیشنز اور تعلیمی اداروں کو بھی ان کاروباری اداروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جن کی وجہ سے اِن کی واجب الادأ مالیاتی ذمہ داریاں (کاروباری غیرپیداواری اخراجات) بڑھ جائیں گے۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور میں دکانوں‘ دفاتر اور فلیٹس کے لئے ماہانہ واٹر چارجز سات سو روپے‘ ہوٹل کے لئے آٹھ سو روپے فی کمرہ‘ شادی ہالز کے لئے دس سے چالیس ہزار روپے ماہانہ‘ طلبہ کی قیام گاہوں (سٹوڈنٹ ہاسٹلز) کے لئے چارسوچالیس روپے فی کمرہ‘ ریسٹورانٹس کے لئے پانچ ہزار سے پندرہ ہزار روپے اور ایک سو دکانوں یا دفاتر والے پلازوں کے لئے ستر ہزار روپے ماہانہ پانی کے چارجز تجویز کئے گئے ہیں۔ اِس کے علاوہ بطور عوامی یوٹیلیٹی پانی کے کنکشن چارجز بھی وصول کئے جائیں گے۔ تاجروں دکانداروں اور صنعتکاروں کا مؤقف ہے  نامساعد معاشیحالات کا ادراک کیا جائے اور ایک ایسی صورتحال جس میں کاروبار‘ تجارت اور صنعتیں سست روی کا شکار ہیں، معاشی و تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے کاروباری برادری کو بہتر سہولیات اور ریلیف فراہم ہونا چاہئے۔ مختلف حکومتی محکموں کی جانب سے کاروباری احاطے‘ تجارتی مراکز‘ ہوٹلوں اور ریسٹورانٹس‘ شادی ہالوں اور صنعتوں پر غیر منطقی اور بھاری ٹیکس عائد کرنے اور زیادہ تر دہرے ٹیکسوں پر نظرثانی ہونی چاہئے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کو افغان جنگ کی صورت دکھ بھرے نتائج کا سامنا رہا ہے۔ افغانستان پر روسی حملے اور قبضے سے لے کر طالبان کی پہلی حکومت تک اولین دباپہلا دباؤ پشاور ہی نے دیکھا۔  صوبائی دارالحکومت اور اس کے آس پاس کے تنازعات نے شہری زندگی اور ترقی کو بحال نہیں ہونے دیا۔ پشاور کے قدیمی خاندانوں نے یہاں سے کوچ کیا۔ کچھ پشاور سے دور بلکہ بہت دور جا کر آباد ہوئے اور کچھ نے پشاور کے مضافاتی دیہی علاقوں میں نئی بستیاں آباد کر لیں۔ اگر اُن سبھی نئی رہائشی بستیوں کے ناموں پر غور کریں تو اکثریت کے ساتھ باغ یا کسی نہ کسی سبزہ زار کی مناسبت ملتی ہے۔ یہ اہل پشاور کا ذوق‘ باغات سے محبت اور اپنے شہر سے محبت ہے کہ یہاں سے دور (الگ) ہونے کے باوجود بھی ہر نئی دنیا میں ایک نیا پشاور بسا لیتے ہیں اور اِس سے تسکین و راحت پاتے ہیں۔  پشاور میں کبھی پھلوں (انگور‘ انار‘ آلوچہ‘ خوبانی‘ آڑو‘ سیب وغیرہ) کے باغات ہوا کرتے تھے لیکن آج موسمیاتی تبدیلیوں اور زرعی اراضی میں کمی سے پشاور کا زرعی حوالہ اور یہاں کی آب و ہوا کی خوبیاں سب کہانیاں بن گئی ہیں۔ محکمہئ موسمیات کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق جنوری 1970ء میں پشاور شہر کا کم سے کم درجہ حرارت منفی تین ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ تب پشاور کی آبادی دو لاکھ باسٹھ ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ آج کے پشاور شہر میں پچاس ڈگری سینٹی گریڈ تک گرمی پڑتی ہے اور چھٹی مردم شماری کے مطابق پشاور شہر کی آبادی تیئس لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 92 یونین کونسلوں پر مشتمل پشاور شہر کی اصل آبادی اور اصل شرح آبادی بڑھنے کی رفتار معلوم ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ پینے کے پانی کی فراہمی‘ نکاسیئ آب‘ پبلک ٹرانسپورٹ‘ علاج‘ تعلیم‘ صفائی ستھرائی اور دیگر سہولیات کے مقدار و معیار میں جس قدر سرمایہ کاری کی جائے وہ کم رہتی ہے۔ پشاور شہر کی بنیادی ضرورت آبادی کے درست اعدادوشمار ہیں اور جب تک ہر یونین کونسل کی سطح پر الگ الگ مردم و خانہ شماری نہیں کی جائے گی اُس وقت تک پشاور میں سہولیات کی فراہمی اور یہاں کی شہری زندگی کو رواں دواں رکھنے کی کوششیں خاطرخواہ کامیاب نہیں ہوں گی۔ ”درخت چھاؤں مسافر سفر تھکن منزل …… طرح طرح کے معمے بنائے جاتے ہیں (شہباز رضوی)۔“
سال 1975ء میں پشاور میٹروپولیٹن اتھارٹی (پی ایم اے)‘ اربن پلاننگ ایکٹ کے تحت قائم کی گئی۔ 1978ء میں اِس اتھارٹی (پی ایم اے) کا نام تبدیل کرکے پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) رکھ دیا گیا۔ دسمبر 1979ء میں روسی افواج افغانستان پہنچیں اور لاکھوں افغان مہاجرین پشاور منتقل ہونا شروع ہوئے جن کی آباد کاری کا عمل اب بھی جاری ہے! اِس پوری صورتحال کا بوجھ صوبے کی سب سے بڑی علاج گاہ (ہسپتال لیڈی ریڈنگ ہسپتال) پر پڑا جس کی وجہ سے اہل پشاور اور قرب و جوار کے اضلاع میں رہنے والوں کے لئے صحت کی سہولیات ناکافی ہو گئیں۔ جسے مدنظر رکھتے ہوئے 1976ء میں موجودہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال (حیات شہید ہسپتال) بنایا گیا اور پھر یہ بھی وقت کے ساتھ ناکافی ثابت ہوا۔ اِس کے بعد 1992ء میں حیات آباد میڈیکل کمپلیکس (ایچ ایم سی ہسپتال) بنا تو وہ بھی مریضوں سے بھر گیا اور پھر قبائلی اضلاع ضم ہوئے۔ نجی ہسپتالوں کا جال بچھ گیا۔ توجہ طلب ہے کہ آبادی اور وسائل کسی بھی شہری علاقے کی منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پشاور اور اس کے گردونواح میں بدلتی ہوئی صورتحال کے باعث شہریوں کو مناسب سہولیات میسر نہیں۔ پشاور کی پہلی جدید ہاؤسنگ سوسائٹی حیات آباد 1970ء کی دہائی کے آخر میں قائم ہوئی لیکن یہ بھی سوفیصدی مکمل نہیں اور دیگر کئی بستیاں آباد کرنے کی کوششیں بھی اچھی نیت لیکن ناکافی عملی اقدامات سے جاری ہیں، ایک ایسی صورتحال میں اگر پشاور کی تلاش کے لئے نکلا جائے تو ہر طرف ’معمے ہی معمے‘ دکھائی دیتے ہیں‘ جنہیں سلجھانے (حل کرنے) کی بہت ہی کم کوششیں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔