خیبر پختونخواکس کی جھولی میں؟

 جمعرات کو پنجاب اسمبلی کی طرف سے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی پر اعتماد کے اظہا ر کے بعد اسی روز شام کو طویل مشاورت کے بعدوزیراعلیٰ نے صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کے حوالہ سے سمری گورنر ارسال کردی ہے اورتوقع ہے کہ آج یا کل تک اسمبلی تحلیل ہوجائے گی کیونکہ اگر گورنر سمری پر دستخط نہیں کرتے تو 48گھنٹے میں اسمبلی خود بخودتحلیل ہوجائے گی ویسے بھی لگتاہے کہ گورنر کی طرف سے اس معاملہ میں تاخیر نہیں کی جائے گی اس سے قبل پرویز الٰہی پر اعتماد کے ووٹ کے عمل کو (ن) لیگ نے متنازعہ اورغیر آئینی قراردیتے ہوئے مسترد کردیاتھا تاہم اسی روز عدالت عالیہ نے اس پورے عمل کی تعریف کرتے ہوئے واضح کردیاتھاکہ سیاسی اور پارلیمانی امور میں عدلیہ کو گھسیٹنا مناسب نہیں‘عدالتی فیصلے کے بعدگورنر نے وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کااعلامیہ واپس لے لیاتھا یوں پی ٹی آئی اورق لیگ اور صوبہ میں ایک اوربڑی کامیابی مل گئی تھی کہاجارہاتھاکہ پرویز الٰہی کسی بھی صورت اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے یہ حقیقت بھی ہے کہ پرویز الٰہی چاہتے تویہی تھے کہ انہیں مزید دویاتین ماہ مل جائیں تاکہ کھربوں روپے جو خزانے میں پڑے ہوئے ہیں وہ استعمال میں لائے جاسکیں اسی طرح انہوں نے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد صوبہ میں 60ہزار بھرتیوں کااعلان بھی کیاتھا ان کاکہناتھاکہ اگر انہیں وقت مل جائے تو صوبہ سے ن لیگ کاصفایا کردیں گے تاہم پی ٹی آئی کے قائد عمران خان اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے تھے وہ ہرصورت اسمبلی تحلیل کراناچاہتے تھے شاید وہ یہ بھی دکھاناچاہتے تھے کہ وہ کس طرح اپنے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘پرویز الٰہی نے بھی اپنا وعدہ نبھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمر ی پر دستخط کرکے یقینا ن لیگ اور پی ڈی ایم کی باقی جماعتوں کو پریشان کردیاہے جس کے فوری بعد پی ڈی ایم کے بڑوں کے درمیان رابطے ہوئے اور فیصلہ ہواکہ اسمبلی تحلیل کے عمل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیاجائے گا اس سلسلہ میں قانونی ماہرین کا کہناہے کہ اسمبلی تحلیل کرنے کے حوالہ سے آئین نے واضح طورپر وزیر اعلیٰ کو اختیار دیاہواہے اور اس اختیار کو چیلنج نہیں کیاجاسکتا ان کایہ بھی کہناہے کہ اس قسم کے معاملات عدالت لے جانا عدالتوں پر بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے بعض سیاسی رہنماؤں کابھی یہ خیال ہے کہ جب پنجاب اسمبلی ہی تحلیل ہوجائے گی تو پھر ملک کو عام انتخابات کی طرف جاناچاہئے خود راقم کے ساتھ گفتگو میں پی ڈی ایم اوراس کی اتحادی جماعتوں کے بعض قائدین بھی یہی کہتے ہیں کہ بہتر ہوگاکہ قوم سے تازہ مینڈیٹ لیاجائے اس صورتحال کے تناظر میں اگرہم اپنے صوبہ کے سیاسی منظرنامے کاجائزہ لیں تو سیاسی پیچیدگیوں کااندازہ کرنامشکل نہیں ہوتا پنجاب اسمبلی کے بعد خیبرپختونخوااسمبلی نے بھی تحلیل ہوناہے اوریہاں پر کوئی مشکل بھی درپیش نہیں حیرت تو اس امرپرہے کہ پنجاب اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچانے کے لئے ہر حدتک جانے کے لئے تیار اپوزیشن جماعتیں خیبرپختونخو امیں پراسرار طور پر خاموش ہیں حالانکہ ان کے پاس موقع تھا وہ وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتمادکی تحریک جمع کرواکر اسمبلی تحلیل کا راستہ روک سکتی تھیں مگر لگتا یہ ہے کہ پنجاب کے برعکس خیبرپختونخوامیں اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں کہ ہر صورت اسمبلی تحلیل ہو اورپی ٹی آئی سے جان چھوٹ جائے اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس صوبہ میں پی ٹی آئی گذشتہ نو سال سے برسراقتدار چلی آرہی ہے جو اس صوبہ کی سیاسی تاریخ کاریکارڈ ہے کیونکہ اس سے قبل کوئی بھی سیاسی جماعت اتنے طویل عرصہ تک مسلسل برسراقتدار نہیں رہی اپوزیشن جماعتیں اب اس تسلسل سے ہر صور ت چھٹکاراچاہتی ہیں اسی لئے تو اسمبلی تحلیل کاراستہ روکانہیں جارہا یہ بھی کہاجارہاہے کہ صوبہ میں جو نیا سیٹ اپ آئے گا ہوسکتاہے کہ وہ پھر ایک سال تک چلے اپوزیشن کے بعض رہنماؤں کایہ بھی دعویٰ ہے کہ نگران سیٹ اپ ان کی مرضی کاآنے والاہے گویا نگران وزیر اعلیٰ کے معاملہ پر پی ٹی آئی اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں‘گذشتہ دور میں بھی یہی ہوا تھا وزیر اعلیٰ اوراپوزیشن لیڈر کے درمیان عدم اتفاق کے بعد معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلاگیا تھااور اس کی طرف سے نگران وزیر اعلیٰ کی نامزدگی کی گئی تھی اب جہاں تک الیکشن کمیشن کاتعلق ہے تو اس کے ساتھ بھی پی ٹی آئی کے تعلقات و معاملات زیادہ اچھے نہیں ہیں گویا اس کی طرف سے بھی پی ٹی آئی کوٹف ٹائم دیئے جانے کاامکان ہے گویا نگران سیٹ اپ اپوزیشن کی مرضی کاآسکتاہے جس کے بعد پی ٹی آئی کے لے یقینا مشکلا ت میں اضافہ ہوگا تاہم آئین کے تحت تو نوے روز کے اندر ہی الیکشن کرائے جانے ضروری ہیں نگران سیٹ کو طوالت دینے کے لئے جواز ڈھونڈ کے لانا اپوزیشن کے ذمہ ہوگا البتہ اگرہم ماضی میں جائیں توجب اکرم درانی وزیر اعلیٰ تھے توانہوں نے آئینی میعاد سے دو ماہ قبل ہی اسمبلی تحلیل کردی تھی جس کے بعد ہمارے صوبہ میں نگران سیٹ اپ کم وبیش پانچ ماہ پر مشتمل رہا باقی صوبوں میں نگران سیٹ اپ تین ماہ پرہی مشتمل رہا تھا‘ گویا ہمارے سامنے ایک مثال موجودہے تاہم اس وقت اسمبلیوں کے آئینی میعاد میں سات ماہ باقی ہیں‘ تین ماہ الیکشن کے لئے شامل کردیں تو نگران سیٹ اپ کو دس ماہ تک برقرار رکھنابہت مشکل دکھائی دیتاہے تاہم اگر اپوزیشن جماعتیں اضافی وقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں اور نگران سیٹ کو بڑے فیصلوں کااختیار مل جاتاہے تو اگلے چند ماہ میں پھر پی ٹی آئی کے لئے پریشانیاں پیداکی جاسکتی ہیں تاہم اس کا دارومدار مرکزکے تعاون پرہوگا کیونکہ صوبہ کاخزانہ تو اس وقت خالی ہے اگر مرکز نے فنڈز فوری طورپر دیئے (جس کے امکانات کم ہی دکھائی دیتے ہیں)تو پھر اپوزیشن جماعتیں بہت کچھ کرکے دکھاسکتی ہیں‘ دوسری طرف اگر معاملہ الیکشن کی طرف جاتاہے تو صوبہ کی سیاسی فضاء پرو پی ٹی آئی اور اینٹی پی ٹی آئی کی صورت میں تقسیم نظر آتی ہے یہ کہنامشکل نہیں کہ اگر اپوزیشن جماعتوں نے مل کر پی ٹی آئی کامقابلہ کرنے کی کوشش نہ کی تو اینٹی پی ٹی آئی ووٹ کی تقسیم کافائدہ پی ٹی آئی بھرپور طریقے سے اٹھائے گی‘اپوزیشن جماعتیں جب ایک دوسرے کے خلاف میدان میں نکلیں گی تو پی ٹی آئی کے لئے میدان خود بخود صاف ہوجائیگا لیکن اگر کم ازکم پیپلزپارٹی،اے این پی،جے یو آئی،کیوڈبلیو پی اور ن لیگ اتحاد نہ سہی سیٹ ایڈ جسٹمنٹ ہی کرلیتی ہیں تو یقینی طورپر پی ٹی آئی کے لئے صوبہ میں کامیابی کی ہیٹ ٹرک کرناانتہائی کٹھن مرحلہ بن جائیگا مگر فی الوقت اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے امکانات کم ہی دکھائی دیتے ہیں جس کااظہار اپوزیشن رہنما نجی محافل میں کرتے رہتے ہیں گویا اپوزیشن جماعتوں کے لئے اصل مسئلہ الیکشن نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے توڑ کے لئے باہمی اتحاد ہے لیکن ابھی تک کسی بھی اپوزیشن جماعت کی طرف سے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے کوئی کوشش نہیں کی جاسکی ہے‘ کہاجارہاہے کہ الیکشن کااعلان ہوتے ہی اس طرف توجہ دی جائیگی مگرہم بارہایہ دیکھ چکے ہیں کہ عین الیکشن کے دنوں میں سیاسی اتحاد یا پھر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جاسکتے زیادہ دور جانے کی ضرور ت نہیں 2018ء کے انتخابات کے دنوں میں عین موقع پر ایم ایم اے بحال کی گئی مگر اس کو بری طرح سے شکست کاسامناکرنا پڑا‘ اتحادی جماعتوں کے کارکنوں کے لئے ایک دوسرے کو قبول کرنے میں وقت لگتاہے اس لئے اگر اتحاد کرناہی ہے تو یہی وقت مناسب ہے‘بصورت دیگر پی ٹی آئی کاراستہ روکنا بہت مشکل ہوگا۔