جنیوا سے تقریبا ًدس ارب ڈالر کے وعدوں کی خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان کی معاشی بحالی کے بارے میں ملکی و غیرملکی تجزیہ کار مایوسی کا اظہار کر رہے تھے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کی اِس کوشش کی کامیابی سے معاشی بحالی کی اُمید پیدا ہوئی ہے۔ عالمی برادری نے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر پاکستان کی مدد کرنے کے لئے جن وعدوں یا ارادوں کا اعلان کیا ہے اُنہیں عملی جامہ پہنانے کے لئے زیادہ محنت کی ضرورت ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت نے جس طرح دنیا کے سامنے ماحولیاتی انصاف کا مقدمہ پیش کیا اُسی جوش و جذبے سے امدادی اعلانات کو تحریری معاہدوں کی صورت پختہ وعدوں میں تبدیل کیا جائیگا۔ دوسری طرف پاکستان کو اپنے ترقیاتی کام کاج کی استعداد و رفتار میں اضافہ اور سخت ترین مالیاتی نظم و ضبط کا بھی عملاً مظاہرہ کرنا ہوگا جہاں ہر سال منصوبہ بندی کے تحت‘ قومی و صوبائی بجٹ میں محکموں کو دیئے جانے والے مالی وسائل خرچ نہ ہو رہے ہوں وہاں اچانک ملنے والی اربوں ڈالر امداد سے کس طرح فائدہ اُٹھایا جائے گا‘ یہاں ضرورت حب الوطنی کے ساتھ انسانی ہمدردی کے اظہار کی بھی ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی معیشت و معاشرت بحال کرنا ہے۔معاشی بحالی کی امید ’روز روشن‘ کی طرح عیاں ہیں جس کی کئی نشانیاں موجود ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان قرض یا بھیک نہیں مانگ رہا بلکہ آب و ہوا کو پہنچنے والے اُس نقصان کی تلافی چاہتا ہے جو ترقی یافتہ ممالک کی صنعتی ترقی کا درپردہ شاخسانہ (نتیجہ) ہے۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان نے سیلاب کے بعد سے (تین ماہ کے عرصے میں) تکنیکی اور سفارتی محاذوں پر ملک کا مقدمہ انتہائی دانشمندی سے لڑا ہے۔ پاکستان نے نہ صرف اپنا بلکہ اُس تمام ممالک کا مقدمہ بھی لڑا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے براہئ راست متاثر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ماحولیاتی تنوع پر غور کرنے کیلئے حالیہ عالمی اجلاس کے ایجنڈے میں موسمیاتی تبدیلیوں سے ہوئے نقصانات کی تفصیلات اور اِس سلسلے میں عالمی مالی اعانت کو شامل کیا گیا۔ اسکے بعد وزیرخارجہ بلاول بھٹو کی جانب سے اُن تمام ممالک کی وکالت کی گئی جو پاکستان کی طرح کسی نہ کسی صورت موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہیں‘ تیسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے اپنے ہاں نقصانات کا نصف حصہ ازخود ادا کرنے کی حامی بھری اور عالمی برادری سے نقصانات کے نصف یعنی آٹھ ارب ڈالر کی درخواست کی۔ پاکستان نے عالمی سطح پر جس ہمدردی اور قیادت کا مظاہرہ کیا ہے اُس کی وجہ سے معاشی دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑے ملک کی ساکھ بھی بہتر ہوئی ہے اور دنیا نے پاکستان کے مؤقف کو سراہا ہے تاہم غیر منطقی بات یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) پروگرام کے بارے میں وزیر خزانہ نے غیرمتوقع طور پر مختلف رویہ اختیار کیا۔ جنیوا روانگی سے پہلے ”کس نے کس کو بلایا“ کی بات سامنے آئی۔ امید تھی کہ ’آئی ایم ایف‘ کے سربراہ ذاتی طور پر پاکستان کی مدد کے لئے آگے آئیں گے لیکن اِس تصور کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا اور عالمی کانفرنس میں آئی ایم ایف کی نمائندگی پاکستان میں مشن سربراہ نے کیا مذکورہ ماحولیاتی کانفرنس میں مختلف ممالک کی جانب سے امداد کے اعلانات ہوئے لیکن ’آئی ایم ایف‘ نے خلاف توقع کوئی بھی ایسا وعدہ یا اشارہ یا عندیہ نہیں دیا جس سے پاکستان کو راحت کا احساس ہوتا۔ ماضی میں ’آئی ایم ایف‘ آفات کی صورت میں پاکستان کو براہ راست مدد فراہم کر چکا ہے لیکن اِس مرتبہ ایسا نہیں کیا گیا۔ جنیوا میں کئے گئے عالمی وعدوں کی فہرست میں ’آئی ایم ایف‘ کا ذکر نہ ملنے سے ایک کمی بہرحال محسوس کی گئی ہے ’آئی ایم ایف‘ اپنے نویں جائزے کے لئے ادھوری شرائط کو بار بار دہرا رہا ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے سانس لینے کی مہلت مانگی جا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیر خزانہ کو امید ہے کہ خلیجی عرب ممالک (متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب) سے حسب اعلان امداد و سرمایہ کاری ملے گی جس سے اسٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر جو کہ خطرناک حد یعنی ساڑھے چار ارب ڈالر کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں‘ کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ مذکورہ خلیجی ممالک کی جانب سے پیشکشوں کا اعلان اپنی جگہ لیکن یہ امداد فوری طور پر‘ اُس وقت تک نہیں ملے گی جب تک ’آئی ایم ایف‘ اپنا نواں جائزہ مکمل نہیں کر لیتا۔ یہی صورتحال جنیوا میں ہونیوالے کثیر الجہتی وعدوں کا بھی ہے جو مجموعی طور پر 9.7 ارب ڈالر مالیت کے ہیں۔ اگر یہ فرض کریں کہ موسمیاتی انصاف کے طور پر پاکستان کو قریب دس ارب ڈالر مل بھی جاتے ہیں تو یہ فوری طور پر خرچ ہو جائیں گے کیونکہ پاکستان کے ذمے مالیاتی ذمہ داریاں اور ضرورتیں منہ کھولے کھڑی ہیں۔ پاکستان کے پاس متبادل کے طور پر اپنے وسائل کی ترقی اور حکومتی اخراجات میں کمی جیسے آپشنز موجود ہیں‘ جس کیلئے وسیع البنیاد‘ کثیرالجہتی اور غیرمشروط سیاسی تعاون کی ضرورت ہے جس سے سیاسی استحکام کی فضا پیدا ہو اور ایک ایسا قومی لائحہ عمل تشکیل دیا جا سکے جس سے معاشی بحالی میں دوسروں کی بجائے اپنے وسائل پر انحصار مرکوز رہے‘پاکستان قدرتی وسائل کے لحاظ سے دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے لیکن ان وسائل کے انتظام اور ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ کیا یہ بات تعجب خیز نہیں کہ جسمانی تھکاوٹ کے باعث سر درد و بخار جیسی عمومی علامات میں استعمال ہونے والی دوا (پیناڈول) سے لے کر توانائی کی پیداوار تک کی ضروریات مائع گیس (ایل این جی) اور کوئلہ درآمد کرنا پڑ رہے ہیں! پاکستان کسی بھی لحاظ سے غریب ملک نہیں اور نہ ہی اِسے خود کو غریب سمجھنا چاہئے۔ بنیادی تبدیلی حکمرانی کی سوچ اور طرز حکمرانی (عمل) کی ہونی چاہئے۔ سادگی اور کفایت شعاری قومی مزاج کا حصہ کیوں نہیں ہو سکتے؟ حرف آخر یہ ہے کہ پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے کیلئے سیاسی و سماجی سطح پر‘ اپنے قول و فعل میں گہری ساختی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ ”ہماری فاقہ مستی اک جہاں کے پیٹ بھرتی ہے …… ہم اپنے پاؤں کے نیچے خزانہ چھوڑ دیتے ہیں (عقیل اے صدیقی)“