اسلامی بینکاری: قومی و مذہبی ذمہ داری

گزشتہ ہفتے روایتی سے اسلامی بینکاری میں سب سے بڑی تبدیلی اُس وقت دیکھنے میں آئی جب فیصل بینک نامی مالیاتی ادارے نے اپنی تمام شاخوں کو ’اسلامی بینکاری‘ میں تبدیل کر لیا اور یہ نہایت ہی اہم پیشرفت ہے۔ پاکستانی بینکوں کو اسلامی بینکاری کے قالب میں ڈھالنے کا تصور بابائے قوم قائد اعظم ؒ کے خواب کی تکمیل ہے جنہوں نے 1948ء کے اوائل میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے جس اُمید کا اظہار کیا تھا وہ 75 سال بعد حاصل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ قائد اعظمؒ نے تھا کہ ”میں آپ کے ادارے کی سماجی اور معاشی خدمات کو اسلامی نظریات سے مطابقت رکھنے والے بینکاری کے مطابق مرتب ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں۔“ مغربی معاشی نظریہ اور مالیاتی نظم و نسق اپنانے کا تجربہ اپنی جگہ ناکام ہوا ہے اور اِس سے جس درجہ خوش حال و مطمئن لوگ اور وسیع کاروباری سرگرمیاں پیدا ہونے کی اُمید تھی وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکے ہیں یقینا وقت کی ضرورت ہے کہ ایک اسلامی ملک کا اپنا اسلامی مالیاتی نظام ہونا چاہئے۔ اسلام نے جو مالیاتی نظام پیش کیا ہے وہ ہر لحاظ سے جامع ہے اُور اگر اِس پر مکمل عمل درآمد کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشی ترقی اُور انسداد غربت کے بہت سے اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔پاکستان دنیا کے سامنے ایک ایسا معاشی نظام پیش کر سکتا ہے جو مساوات اور سماجی انصاف کے حقیقی اسلامی تصور پر مبنی ہو۔ اس طرح بطور مسلمان بھی ہم مذہب کی ترویج واشاعت کی ذمہ داری (مشن) پورا کر سکتے ہیں اور عالم انسانیت کو امن کا پیغام دے سکتے ہیں کہ انسانیت کی فلاح و بہبود‘ خوشی اور خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ سرمایہ بلاتعصب و بلاسود تقسیم (زیرگردش) رہے۔ حالیہ چند برس میں دیکھا جائے تو ”اسلامی بینکاری“ کی طرف سست لیکن مستحکم پیش قدمی دیکھنے میں آئی ہے اور کئی ایک ’سنگ میل‘ عبور کئے گئے ہیں جیسا کہ یکم جنوری 1980ء کو اسلامی بینکاری کی جانب سفر میں یہ پیشرفت دیکھنے میں آئی کہ ملک بھر میں نیشنلائزڈ بینکوں میں 7 ہزار اسلامی بینکاری کاؤنٹرز قائم کئے گئے اِن خصوصی سہولیات (کاؤنٹرز) کا مقصد صارفین کو اسلامی بینکاری سے متعارف کرانا اور اِس کی خوبیوں و سہولیات سے آگاہ کرنا تھا اور یہ بامقصد مرحلہ (اقدام) نہایت ہی خوش اسلوبی سے طے ہوا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان کا بینکاری نظام سود سے نجات حاصل کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے اور پاکستان میں اسلامی بینکاری دیگر اسلامی ممالک سے نہایت ہی مختلف ثابت ہوگی کیونکہ یہاں اِس کا کلی اطلاق دیکھنے کو ملے گا یقینا مالیاتی امور اور عملاً اسلام پر عمل پیرا ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ اُن تعلیمات پر عمل پیرا ہوا جائے جن کے بارے میں قرآن مجید میں واضح احکامات موجود ہیں۔ ’سود‘ ایسا ہی ایک معاملہ ہے جس کے بارے میں قرآن مجید میں واضح احکامات موجود ہیں۔ اگر بینکاری سے استفادہ کرنے والا کوئی بھی صارف اسلامی بینکاری کو اپناتا ہے تو درحقیقت یہ اُس کے مال و عمل کی پاکیزگی کا مؤجب بنے گا جس کا قرآن مجید میں ذکر بطور وعدہ موجود ہے البتہ یہ بات سمجھنا ہوگی کہ صحیح معنوں میں (عملاً و جامع) اسلامی بینکاری کا مطلب صرف چند بلا سود خدمات فراہم کرنا نہیں ہوگا بلکہ اسلامی بینکاری درحقیقت ایک ایسا مکمل نظام ہے جو اسلام کی روح کے عین مطابق اور اس کی بنیاد قرآنی احکامات کی صحیح تشریحات پر مبنی ہونا چاہئے۔اسلامی بینکاری کے نظام کے قیام کے لئے ابتدائی تحقیق میں دنیا بھر کے مسلم اسکالرز نے حصہ لیا‘ جن میں پاکستان کے علمائے کرام بھی شامل ہیں۔ اس سلسلے میں سٹیٹ بینک آف پاکستان میں 1950ء میں ایک الگ شعبہ بنام ”اسلامی ڈویژن“ قائم کیا گیا تھا اور 1970ء میں ملک کے مالیاتی اصلاحات سامنے آئیں جس کے نتیجے میں 1980ء میں اسلامی بینکاری متعارف کروانے کے لئے عملی اقدامات کئے گئے اگرچہ اصلاحات کا یہ ایک سست رفتار عمل تھا اور اِس سست روی کی وجہ سے مغربی ممالک کا بینکاری نظام پھیلتا چلا گیا لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی اور اصلاح ممکن ہے۔ یہ پہلو بھی پیش نظر رہے کہ پاکستان کے مالیاتی نظام سے متعلق بہت سے قوانین میں ترمیم کی گئی اور نئے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں۔ پاکستان کا موجودہ ’مالیاتی ماڈل‘ عالمی سطح پر دستیاب بینکاری کے ماڈل سے زیادہ بہتر ہے‘ ملک کی موجودہ معاشی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہماری حکومت غیر ملکی قرض دہندگان کو اس اسلامی نظام پر عمل کرنے پر قائل کر سکتی ہے اور کیا پاکستان اِس قابل ہے کہ وہ کسی ملک یا مالیاتی ادارے سے قرض اپنی شرائط کے مطابق مانگے؟ خلاصہئ کلام یہ ہے کہ اسلامی بینکاری کے ساتھ اسلامی معیشت بھی اپنانا ہوگی۔ ایک ایسی اسلامی معیشت جس میں قومی وسائل بطور امانت حکمرانوں کی دسترس میں ہوتے ہیں اور جس میں قومی وسائل کی ترقی کے ساتھ معیشت ترقی کرتی ہے۔ سادہ و خودانحصاری پر مبنی طرز حکمرانی اختیار کی جاتی ہے اور اگر منجملہ اہداف حاصل کر لئے گئے تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کی دیکھا دیکھی اسلامی بینکاری نظام صرف دیگر اسلامی ممالک ہی نہیں بلکہ غیرمسلم ممالک بھی اختیار کریں گے۔ پہلے ہی پاکستان میں اسلامی بینکاری کے تجربات نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کر رکھی ہے اور عالمی سطح پر اِس بات کا چرچا ہے۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور ہم دنیا پر یہ ثابت کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں کہ اسلامی بینکاری اور اس سے وابستہ مالیاتی نظام ہی بہترین معاشی و اقتصادی حل ہے۔ توجہ طلب ہے کہ ہماری کامیابی اور اسلامی بینکاری کے کامیاب نفاذ سے نہ صرف پاکستان عالم اسلام میں اپنا جائز مقام حاصل کرے گا بلکہ بابائے قومؒ کی ارشاد پر بھی عمل درآمد ممکن ہو گا جو پاکستان میں ’اسلامی مالیاتی نظام‘ دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے۔