عظیم شخصیات کی پہچان

 عظیم شخصیات ہر دور اور ہر قوم میں پیدا ہوتی ہیں ان کی عظمت انسانیت کے لئے ان کی گرانقدر خدمات کی مرہون منت ہوتی ہے۔کچھ لوگ بہت زیادہ مال ودولت جمع کرکے، عالیشان محل تعمیر کرکے اور قیمتی گاڑیاں خرید کر خود کو بڑا آدمی منوانے کی کوشش کرتے ہیں مگر کچھ لوگ عبدالستار ایدھی کی طرح غریبوں، لاچار اور بے سہارا لوگوں کی مدد کے لئے جھولی پھیلا کر بھیک مانگتے ہیں اور خود پھٹے پرانے کپڑے، پلاسٹک کے چپل پہن کر، فرش پر بیٹھ کر روکھی سوکھی کھاتے ہیں اور عالمگیر شہرت پاتے ہیں۔ ان شخصیات کے پاس زندگی گزارنے کے کئی راستے تھے تاہم انہوں نے خدمت اور انسان دوستی کا راستہ چنا جو آسان ہر گز نہیں۔ اس راستے پر چلتے ہوئے ان شخصیات نے اپنی آرام دہ زندگی کو چھوڑا۔ کسی کے درد کا مداوا کرنا وہ عمل ہے جس کے ذریعے حاصل ہونے والی خوشی کا انداز ان شخصیات کو ہو گیا تھا اس لئے تو انہوں نے بظاہر یہ مشکل راستہ چنا، عبدالستار ایدھی کے بارے میں تو وطن عزیزکا بچہ بچہ جانتا ہے کہ تاہم قیام پاکستان سے مہربائی نامی خاتون  بھی انہی شخصیات میں شامل ہیں۔اس وقت مہربائی کے گلے میں 254 قیراط کا ہیراتھا۔جو مشہور زمانہ کوہ نور ہیرے سے دگنی جسامت اور وزن رکھتا تھا۔یہ معزز خاتون  ایک مشہور سرمایہ کار کی بیوی تھی‘1924 کی عالمی کساد بازاری کے دوران کمپنی دیوالیہ ہوگئی۔کمپنی کے ہزاروں ملازمین کے سروں پر بے روز گاری کی تلوار لٹکنے لگی۔ایسے میں مہربائی نے اپنا یہ ہیرا امپیریل بینک میں ایک کروڑ کے عوض گروی رکھا اور کمپنی کو دیوالیہ ہونے اور ملاز مین کو بے روز گار ہونے سے بھی بچالیا۔ اس واقعے کے کچھ ہی عرصے بعد مہر بای خون
 کے سرطان میں مبتلا ہو گئی اور مر گئی۔ان کی موت کے بعد اس کے خاندان والوں نے یہی ہیرا بیچ کر بلڈ کینسر ریسرچ فاؤنڈیشن قائم کر دی فاؤنڈیشن کے زیر انتظام بلڈ کینسر پر ریسرچ کے ساتھ بلڈ کینسر کے مریضوں کا بلا معاوضہ علاج آج بھی جاری ہے۔ ہم معاشرے میں مادیت پسندی اور خود پرستی کا رونا روتے نہیں تھکتے۔مگر کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے کہ معاشرے کے بگاڑ میں خود ہمارا ہاتھ تو نہیں ہے؟ہم اپنے بچوں سے یہ توقع  رکھتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ نمبر لے کر پاس ہوں گے تو والدین کا سر فخر سے بلند ہوگا۔ہم ان سے انسان دوستی،دوسروں کی مدد کرنے اورکسی کا دکھ بانٹنے کا  درس بچوں کو شاید ہی ہم دیتے ہیں۔ہماری بے جا توقعات پر پورا اترنے کی کوشش میں  ہو پھر جس طرح کا طرز عمل اپناتے ہیں اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے‘آج جو ہمارے معاشرے میں ڈپریشن اور دیگر ذہنی امراض کی بہتات ہے تو اس کی بڑی وجہ تیز ترین زندگی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ اور اس دوڑ میں اپنے آپ کو ہلکان کرنا ہے۔ ہم دوسروں کی دیکھا دیکھتی میں وہ اشیاء ضرور حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو دوسروں کے پاس ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ ان اشیاء کے حصول کیلئے انہوں نے کیا طرز عمل اختیار کیا ہے۔ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی اس دوڑ میں ہم اس قدر مصروف ہو گئے ہیں کہ اردگرد کا تو کیا اپنا بھی خیال نہیں رہا اور مصروف ترین زندگی نے جہاں بہت سے معاشرتی مسائل پیدا کئے ہیں وہاں صحت کے حوالے سے بھی معاملات خراب ہوتے گئے ہیں اور تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ملک میں نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد کی تعداد تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس کی بڑی وجہ ہم خود ہیں اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ طرز زندگی کو بدل دیا جائے اور پرسکون رہنے کے لئے  اپنی خواہشات کی تکمیل کی بجائے دوسروں کے آرام اور سکون میں مدد دینے کا فارمولہ اپنایا جائے۔