مہنگائی بحران: اسباب و خوداحتسابی

وفاقی ادارہئ شماریات کے مطابق ”ضروریات ِزندگی میں سرفہرست اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ’30 فیصد‘ سے زیادہ ہے تاہم کھانے پینے کی اشیا دسمبر 2022ء کے مقابلے جنوری 2023ء کے پہلے پندرہ روز میں قریب آٹھ (7.9) فیصد کم ہوئی ہیں۔“ ان اعداد و شمار سے قطع نظر اصل صورتحال یہ ہے کہ عام آدمی کو رواں ماہ کے دوران گندم کے آٹے اور روٹی کی قیمت میں دس فیصد سے زیادہ اضافہ برداشت کرنا پڑا اور 20 کلوگرام آٹے کا تھیلہ 3100 روپے سے تجاوز کر گیا جبکہ اِس کی پرانی قیمت 2100 روپے تاحال بحال نہیں ہوئی ہے۔ سولہ جنوری کے روز پشاور کی مارکیٹ میں بیس کلوگرام مکس آٹے کا تھیلہ 2650‘ سپر فائن 2750 اُور فائن 2900 روپے کا فروخت ہوا۔ الگ موضوع ہے کہ آٹے کے جس تھیلے پر ”وزن: 20 کلوگرام“ لکھا ہوتا ہے اُسے تولنے پر تھیلے (توڑے) کا مجموعی وزن (آٹا بمعہ کپڑے کا بنا ہوا تھیلا) بمشکل 18 یا 19 کلوگرام ہی ہوتا ہے۔پاکستان میں مہنگائی کے دو بنیادی محرک ہیں۔ معاشی سست روی اور حکومتی اداروں کی نرمی  سے ناجائز فائدہ اٹھانا۔ معاشی سست روی کا آغاز سال دوہزاربائیس کے دوسرے نصف حصے میں شروع ہوا جو رواں برس (دوہزارتیئس) کی پہلی ششماہی تک برقرار رہنے کی توقع ہے۔ حکومت کے لئے خوراک کے شعبے کو دی جانے والی سبسڈی (رعایت) برقرار رکھنا مشکل سے ناممکن حد تک دشوار ہو رہا ہے کیونکہ اجناس پر دی جانے والی اِس ’سبسڈی کا اثر عام آدمی تک پہنچتا ہی نہیں اگر چہ سالانہ اربوں روپے کی دی جانے والی سبسڈی عوام تک پہنچنے کے لئے نگران ادارے قائم ہیں‘ اِس صورتحال میں بُری اور بڑی خبر یہ ہے کہ پاکستان عالمی مالیاتی اِدارے (آئی ایم ایف) سے قرض لینے کے لئے جو تگ و دو کر رہا ہے اُس مشن کی مشروط کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ سال 2023ء کے دوران دی جانے والی سبسڈی میں اضافہ نہ کیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ رواں برس (دوہزارتیئس) کی پہلی ششماہی کے دوران خوراک کی قیمتوں میں کمی کی اُمید نہیں رکھنی چاہئے۔
پاکستان زرعی ملک ہے لیکن غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ رواں برس (دوہزارتیئس) کے دوران (مختلف وجوہات کی بنا)  پر گندم کا پیداواری ہدف (28.4 ملین ٹن) حاصل نہیں ہوگا۔ حیرت ہے کہ خوراک سے متعلق قومی ساز گندم درآمد کر کے دیگر ممالک کے کسانوں کی سرپرستی تو کرتے ہیں لیکن اپنے ملک کے کاشتکار (مزدور کسان) کو دینے کے لئے اِن کے پاس کچھ نہیں ہے! زرعی پیداواری لاگت (بیج‘ کھاد اور ادویات کی قیمتوں) میں اِس حد تک اضافہ کر دیا گیا ہے کہ اب گندم درآمد کرنا نسبتاً کم قیمت ہے اور یہی وجہ ہے کہ بوائی کے رقبے میں کمی اور کاشتکار آئندہ فصل کی دیکھ بھال (تیاری) نہیں کر رہے یا وہ ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ زراعت کر رہے ہیں کہ اب اُنہیں ”اور کوئی کام بھی نہیں آتا!“ ذہن نشین رہے کہ کھاد کی قیمتوں نے گزشتہ برس (سال دوہزاربائیس) کے دوران تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھوا۔ جس میں کچھ عمل دخل مہنگائی کے عالمی رجحان کا بھی تھا اور یہی وجہ ہے کہ رواں برس (دوہزارتیئس) کی پہلی دو سہ ماہیوں (چھ ماہ کے دوران) کھاد کی قیمتوں 
 میں خاطر خواہ کمی آنے کا امکان نہیں ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ بین الاقوامی منڈی میں کھاد اور گندم کی قیمتیں کم ہو بھی جائیں اور یہ قیمتیں مستحکم بھی رہیں لیکن اِس کے فوری ثمرات پاکستان کی منڈی میں صارفین کو نہیں ملتے۔ یہ بات کتنی سچ ہے اِس کا اندازہ گندم‘ کھاد اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کے مطالعے سے کیا جا سکتا ہے۔ اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی مقامی معیشت میں ’زرعی پیداواری ضروریات (ان پٹ) کی عالمی قیمتوں کو عالمی منڈی کے مساوی کرنے میں کم از کم 6 ماہ لگتے ہیں اور اِس دوران مجموعی طور پر مہنگائی کا دباؤ ختم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ قومی فیصلہ سازوں کے سامنے جو مسائل بحرانوں کی صورت میں پڑے
 ہیں اُن میں کھاد یا دیگر زرعی اجناس کی ملکی پیداوار پر سبسڈی میں اضافہ فی الوقت آپشن نہیں کیونکہ پاکستان کو ایسے کسی کام کے لئے مالی وسائل کے اجرأ کی اجازت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے لینا پڑتی ہے اور ’آئی ایم ایف‘ کی پہلی شرط یہی ہے کہ حکومت کی جانب سے مختلف شعبوں بالخصوص خوردنی اشیاء پر دی جانے والی رعایت (سبسڈی)  میں اضافہ کرنے کی بجائے اِس میں بتدریج کمی لائی جائے۔
پاکستان سے برآمد ہونے والی واحد زرعی جنس چاول (دھان) کی پیداوار حالیہ سیلاب سے متاثر ہوئی ہے۔ اندازہ ہے کہ اِس سال ’83لاکھ ٹن‘ کی بجائے ’73 لاکھ ٹن‘ یا اِس سے کم چاول حاصل ہوگا۔ گندم ہو یا چاول‘ اجناس کا کاروبار کرنے والے سٹہ بازی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور زرعی پیداوار و مارکیٹ پر نظر رکھتے ہیں۔ نتیجتاً ذخیرہ اندوزی ہوتی ہے جس کے ثمرات ظاہر ہیں کہ گندم کی طرح چاول کی قیمت پر بھی قابو نہیں آ رہی اور 180 روپے فی کلوگرام سے چاول 320روپے فی کلوگرام تک جا پہنچے ہیں! چاول کی کم فصل ہونے کی وجہ سے رواں برس اِس کی برآمدات کم ہوں گی جو زرمبادلہ کا اہم ذریعہ تھا اور کپاس کے بعد اگر پاکستان کی چاول بھی کم مقدار میں برآمد ہوگی تو زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھے گا۔ پاکستان اپنی ضروریات کے لئے پام آئل (خوردنی تیل) درآمد کرتا ہے جس کی قیمتیں گزشتہ برس کی دوسری ششماہی سے عالمی مارکیٹ میں کم ہوئی ہیں اور اصولاً اِن کے اثرات 2023ء کا آغاز ہونے پر (چھ ماہ بعد) صارفین کو منتقل ہونا چاہئے تھا لیکن ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور انڈونیشیا کی جانب سے اچانک اپنے ’پام آئل‘ کی برآمدات محدود کرنے سے پاکستان میں کوکنگ آئل کی قیمتوں میں اضافے پر اضافہ ہو رہا ہے۔ اِسی طرح قدرتی گیس کی موجودہ (جاری) صورتحال تاریخ کے شدید ترین بحران کی عکاس ہے۔ یہ بحران اتنا شدید ہے کہ گیس صارفین کو کھانے کے اوقات میں بھی گیس نہیں مل رہی اور جب تک گیس بحران رہے گا اُس وقت تک خوردنی اجناس کی مہنگائی بھی برقرار رہے گی کیونکہ خوردنی اجناس کی تیاری سے متعلقہ صنعتوں اور کھانے پینے کی تیاری کی لاگت ہر دن مہنگی ہو رہی ہے۔ لوگ مجبوراً گیس سلنڈرز خریدنے پر مجبور ہیں۔ گیس اور بجلی بحرانوں کی جڑ‘ توانائی کے اِس شعبے سے متعلق گردشی قرضے ہیں‘ جن کا حجم ہر دن بڑھ رہا ہے۔ جب تک سرکاری وسائل کی بچت کے لئے عملاً اصلاحات (اُوور ہالنگ) کرتے ہوئے زرعی خودکفالت کے حصول پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی جاتی اُس وقت تک بحرانوں (مسائل) کا حل ممکن ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔