اعلیٰ تعلیم: حتمی نتیجہ

گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی کی خواہش اور کوشش ہے کہ صوبے کی جامعات (یونیورسٹیز) کو درپیش مالی و انتظامی مسائل جو دیرینہ اور بحرانی صورت اختیار کر چکے ہیں کا وقتی نہیں بلکہ پائیدار‘ یقینی اور عملاً حل تلاش کیا جائے اور اِس مقصد کے لئے بطور سربراہ (چانسلر) اُنہوں نے خیبرپختونخوا کی مختلف جامعات کے نگرانوں (وائس چانسلرز) کا 2 روزہ اجلاس طلب کیا۔ ذرائع کے مطابق وائس چانسلرز نے یونیورسٹیوں کو درپیش مسائل کو اجاگر کیا جو پہلے ہی سے معلوم تھے اِس موقع پر چانسلر (گورنر خیبرپختونخوا) نے قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور خیبرپختونخوا قانون ساز اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کے علاؤہ ’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘ اور وفاقی وزارت ِتعلیم کے ساتھ بات چیت کے ذریعے اِن مسائل کے حل کے عزم کا اظہار کیا‘ جو اِس وجہ سے اپنی جگہ اہم ہے کہ اِس مرتبہ ماضی کے برعکس دو روزہ اجلاس میں کئے گئے فیصلوں پر عمل درآمد و پیشرفت کی نگرانی کے لئے کمیٹی بھی تشکیل دی گئی اور یہی ”حتمی نتیجہ“ قرار دیا جا سکتا ہے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گورنر خیبرپختونخوا نے ایک ایسی بصیرت (ویژن) کا بھی اعلان کیا‘ جو شعبہئ تعلیم کی بالعموم کی ضرورت ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ مقامی یونیورسٹیوں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق لانے کے لئے کام کریں گے‘ جس میں سیکھنے‘ تحقیق‘ جدت طرازی اور ایجادات پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اِس سلسلے میں ایوان ہائے صنعت و تجارت (چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری) کے ساتھ تعلیمی اداروں کے روابط قائم کرتے ہوئے مارکیٹ پر مبنی شعبوں کو مزید ترقی دی جائے گی۔ اس کے علاوہ کاشتکاری (زرعی شعبے) اور مینوفیکچرنگ (صنعتی شعبے) کے درمیان فاصلہ کم کرنے اور تعلیمی اداروں میں ہونے والی تحقیق کے ثمرات بانٹنے پر بھی توجہ دی جائے گی۔ اس پس منظر میں نجی اور سرکاری شعبے کی جامعات کے تقابلی تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ ایک وقت وہ تھا جب یونیورسٹیاں اپنے اخراجات اپنی آمدنی کے ذرائع سے پوری کر رہی تھیں اور منافع بھی کما رہی تھیں لیکن اِنہیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مالی امداد پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے جبکہ یہ مالی امداد کم  ہے اور اِسی وجہ سے جامعات مسائل اور بعدازاں بحرانوں کا شکار ہوتی چلی گئیں۔ کانفرنس میں پیش ہونے والے مطالبات میں جامعات کو درپیش جن دیگر مسائل کا ذکر کرتے ہوئے پیش کئے گئے مطالبات کو اگر فہرست کیا جائے تو اساتذہ اور انتظامی عملے کی بھرتیوں پر عائد پابندی ہٹانا‘ سینیٹ اور سنڈیکیٹ کی تشکیل‘ یونیورسٹی ایکٹ میں ترامیم‘ یونیورسٹیز سے متعلق قوانین کو معیاری بنانا‘ فاصلاتی تعلیم میں سرمایہ کاری‘ آن لائن امتحانات‘ بی ایس پروگرامز‘ کمیونٹی کالجز‘ جامعات کے انتظامی امور میں غیر ضروری سیاسی مداخلت‘ جامعات کے اخراجات میں کٹوتی بشمول کفایت شعاری‘ تحقیق اور ہم نصابی سرگرمیوں پر توجہ دینا شامل ہیں۔ یونیورسٹیوں کی تشکیل نو‘ تنظیم نو‘ شفافیت‘ فیصلہ سازی میں تمام سٹیک ہولڈرز کی مناسب نمائندگی کی ضرورت اِس لئے محسوس کی جا رہی ہے تاکہ اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے معیار کو بہتر بنایا جاسکے اور صرف یہی ایک صورت ہے جس میں پاکستان کی معیشت درآمدات پر اپنے انحصار کو ماضی و مستقبل میں کم کر سکتی ہے۔ جامعات کے بہت سے مسائل انتظامی عہدوں پر فائز عہدیداروں کے ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی وجہ سے ہیں۔ اگر وائس چانسلر‘ چیف ایگزیکٹوز اور پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران کی حیثیت سے یونیورسٹیوں کے انتظامی‘ تعلیمی اور مالی افعال کے ذمہ دار اِس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ’یونیورسٹی ایکٹ 2012ء‘ کی جملہ دفعات‘ قوانین و قواعد (ریگولیشنز اور رولز) پر پور ی طرح عمل درآمد کریں گے تو سرکاری جامعات کی عمومی کارکردگی اور اچھے نظم و نسق کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔  وائس چانسلرز کا مؤقف ہے کہ تحقیق ہو یا ایجادات‘ نصابی ہوں یا ہم نصابی سرگرمیوں جیسے اہداف بنا مالی وسائل حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ مذکورہ کانفرنس میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ چونکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس فی الوقت مالی وسائل (اور ملنے والی امداد) کی کمی ہے لہٰذا مختلف شعبوں جیسا کہ میڈیکل‘ انجینئرنگ‘ زراعت‘ قانون وغیرہ کے لئے علیحدہ جامعات کے قیام سے گریز کیا جائے۔ نئی قائم ہونے والی زیادہ تر سرکاری یونیورسٹیوں کو درپیش دیگر مسائل میں ایڈہاک ازم بھی شامل ہے چونکہ ان یونیورسٹیوں میں سے زیادہ تر باقاعدہ فیکلٹی (تدریسی عملے) کے بغیر چل رہی ہیں جس کی وجہ سے طلبہ کا تعلیمی مستقبل خطرات سے دوچار ہے۔ قابل ذکر ہے کہ یونیورسٹیز ایکٹ 2012ء کے تحت یونیورسٹی کو ’کارپوریٹ باڈی‘ کی حیثیت سے خود مختاری حاصل ہے جبکہ سینیٹ اور سنڈیکیٹ ان کے نگران اداروں کے طور پر کام کرتے ہیں تاہم سینیٹ اور سنڈیکیٹ کے ارکان کی اکثریت اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق فیصلے کرنے میں خودمختار نہیں ہوتی جس کی وجہ سے گورننس (انتظامی امور) متاثر ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے ’ناقص معیار‘ کے پیش نظر حکومت کو موجودہ سرکاری یونیورسٹیوں میں اصلاحات سے قبل کسی بھی نئی یونیورسٹی کے قیام سے گریز کرے۔ جنرل یونیورسٹیوں کو میڈیسن اور انجینئرنگ کے سکول کھولنے کی اجازت دی جائے۔ نئی یونیورسٹیوں کو باقاعدہ فیکلٹی بھرتی کرنے کی اجازت دی جائے۔ وزٹنگ اور اسسٹنٹ فیکلٹی کے علاوہ دیگر تمام پروفیسرز کو باقاعدگی سے بھرتی کیا جائے۔ تحقیق اور جدت طرازی کو بہتر بنانے کے لئے مناسب وسائل فراہم کئے جائیں۔ نئی دریافتوں اور ایجادات کے تخلیقی حقوق محفوظ (پیٹنٹ) کروائے جائیں اور اِنہیں ایک ٹریڈ مارک کے تحت رجسٹر کیا جانا چاہئے تاکہ ملک کے لئے آمدنی اور فوائد یقینی بنایا جاسکے۔ آخری بات یہ کہ سینڈیکیٹ یا سینیٹ کی جانب سے تدریسی اور انتظامی عملے دونوں کے لئے کارکردگی کا کم سے کم معیار (پیمانہ) مقرر کیا جائے۔ اس ساری کوشش اور دو روزہ بحث و مباحثے کا خلاصہ یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی‘ شفافیت‘ احتساب‘ تحقیق‘ جدت طرازی اور ایجاد سے تعلیم کے معیار کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹی کی خودمختاری صرف اسی صورت میں یقینی بنائی جا سکتی ہے جبکہ یہ اپنے فیصلوں میں عملاً خودمختار اور مالی طور پر خود کفیل ہوں۔  فاصلاتی تعلیم اور آن لائن امتحانات کے ذریعے تدریسی عمل کو نئی بلندیوں اور آسانیوں سے روشناس کرایا جا سکتا ہے۔