انتخابات: منڈلاتے خطرات

پہلی خبر (چودہ جنوری): صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ”اگر انہیں لگا کہ حکمراں جماعت کی قومی اسمبلی میں اکثریت نہیں رہی تو وہ وزیر اعظم شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے کہیں گے۔“ دوسری خبر (سترہ جنوری): پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی میں واپسی کا عندیہ دیئے جانے کے ایک روز بعد اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے 35 اراکین قومی اسمبلی اور شیخ رشید کے استعفے منظور کئے‘ سپیکر کی جانب سے قبول کئے جانے کے فوری بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اِن اراکین کو ڈی نوٹیفائیڈ کر دیا گیا۔ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد 11 اپریل 2022ءکو پی ٹی آئی کے 123ایم این ایز نے اجتماعی طور پر استعفے دیئے تھے۔ تیسری خبر (انیس جنوری): الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے 35حلقوں پر ضمنی انتخابات کے لئے مشاورت کا آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ ہفتے ضمنی انتخاب کے لئے تاریخوں (شیڈول) کا اعلان کردیا جائے گا۔ چوتھی خبر (اُنیس جنوری): الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے سربراہ (چیئرمین) عمران خان کو اکتوبر 2022ءکے ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کی تمام نشستوں پر کامیاب قرار دینے کا اعلان کیا۔ یہ نشستیں چارسدہ (این اے24)‘ پشاور (این اے 31)‘ فیصل آباد (این اے 108)‘ ننکانہ صاحب (این اے 118)‘ مردان (این اے 22) اور کرم (این اے 45) کے انتخابی حلقوں پر مشتمل ہیں۔ بیس دسمبر دوہزاربائیس کو 5 رکنی بینچ کی جانب سے فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔انتخابی عمل کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی جمہوریت کا لازمی حصہ ہے اور ایک تسلسل کے ساتھ یہ عمل جاری رہے تو اس سے عوام کا جمہوریت پراعتماد بڑھتا ہے۔سال 2023ءانتخابات کا سال ہے اور انتخابات کا ماحول بن رہا ہے۔ دس سال پہلے اِسی نوعیت کے انتخابی ماحول میں دہشت گردی نے انتخابی مہمات کو متاثر کیا۔ عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت خیبرپختونخوا میں نشانہ بنی۔ سرکاری رپورٹوں کے مطابق بیس اپریل سے لے کر نو مئی کے درمیان 119 سے زیادہ پرتشدد واقعات ہوئے جن میں 437 ہلاکتیں ہوئیں۔ توجہ طلب ہے کہ سال 2000ءاور 2010ءکے درمیان دہشت گردی سے پاکستان کی معیشت کو مجموعی طور پر ”126۔79 ارب ڈالر“سے زیادہ کا نقصان پہنچا۔ لب لباب یہ ہے کہ داخلی و خارجی دہشت گرد پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار دیکھنا چاہتے ہیں اور اِس مقصد کے لئے انتخابی مہمات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے میں انتخابات جیسی مشق کا آغاز ایک مرتبہ پھر اُن جماعتوں کے لئے کڑا امتحان ثابت ہو گا ۔ کیا ہی بہتر ہو کہ جملہ سیاسی قومی و علاقائی قیادت مزید وقت ضائع کئے بغیر ’وسیع تر قومی مفاد میں‘ سر جوڑ کر بیٹھے اور انتخابات سے قبل دہشت گردی کا باعث بننے والے نظریات اور آلہ کاروں سے نمٹنے کی تدبیر بمعہ ٹائم فریم وضع کریں۔اس تناظر میں یہ کہنا درست ہوگا کہ انتخابات کا انعقاد ایک چیلنج ہے جس سے عہدہ براہ ہونے کیلئے تمام سیاسی قیادت کو مل بیٹھ کر منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔انتخابی عمل میںبڑھ چڑھ کر حصہ لینے کیلئے سازگار ماحول کا پروان چڑھانا اس عمل کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے ضروری ہے ۔اس وقت مد مقابل سیاسی جماعتوں میں ایک دوسرے کو سیاسی شکست دینے کیلئے تمام داﺅ پیچ آزمائے جا رہے ہیں اور اس میں کوئی بری بات نہیں بلکہ یہ مناظر سیاسی منظر نامے کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔اگر کوئی کمی محسوس ہورہی ہے تو وہ ایک دوسرے کی اہمیت کو تسلیم کرنے اور ایک دوسرے کے موقف کو ٹھنڈے دل سے سننے کی ہے ۔اب بھی وقت ہے اگر تمام سیاسی قوتیں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کے دروازے بند نہ کریں تو اس سے انتخابی عمل کی انجام دہی کیلئے زیادہ بہتر ماحول میسر ہوگا۔ دوسری صورت میں ملک دشمن قوتوں کو ایسے ماحول سے فائدہ اٹھانے کاموقع مل سکتا ہے جہاں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے فاصلے پر ہوں۔