خیبرپختونخوا اسمبلی کی تحلیل کے بعد اب نگران سیٹ اپ کے قیام کیلئے مشاورتی عمل جاری ہے پہلے خیال کیاجارہاتھاکہ شاید اپوزیشن لیڈر حکومت کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کرتے ہوئے معاملہ پارلیمانی کمیٹی کی طرف جانے دیں گے مگر فی الوقت صورتحال ایسی دکھائی نہیں دے رہی اور اپوزیشن لیڈر اکر م درانی نے دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ مشاورت کے بعد نام سامنے لانے کے عمل کاحصہ بننے کافیصلہ کرتے ہوئے اہم پیشرفت بھی کرلی ہے جہاں تک صوبائی اسمبلی کی تحلیل کاتعلق ہے توپنجاب میں جس طرح گورنر نے خود کو اس آئینی عمل کاحصہ بننے سے بچانے کی حکمت عملی اختیار کی اس کے برعکس خیبرپختونخوا کے گورنرحاجی غلام علی نے اسمبلی تحلیل کی سمری موصول ہوتے ہی تمام متعلقہ عملہ کو فوری طورپر گورنرہاؤس طلب کرلیا رات ساڑھے تین بجے تک مشاورت ہوتی رہی اورجب اگلے روزوہ اپنے دفتر پہنچے تو گورنرپنجاب کے برعکس سمری پرفوری طورپر دستخط کردیئے اس حوالہ سے انہوں نے خود راقم کے ساتھ بات کرتے ہوئے اس امر کااشار ہ دے دیاتھاکہ وہ سمری کو تاخیر کاشکار کرنے کے بجائے اس پرفوری طور پردستخط کرنے کو ترجیح دیں گے اگر گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری پردستخط نہ کرتے تویہ ان کی جماعت کے بیانیہ سے روگردانی ہوتی کیونکہ جے یو آئی ہمیشہ سے یہ کہتی چلی آئی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت سے چھٹکارا کے حصول کے لئے بھرپور اور منظم کوششیں کی جائیں گی اور جب اس سے چھٹکارے سے وقت آگیا تو گورنر اگر دستخط نہ کرتے تو پھران کی طرف انگلیاں ضروراٹھتیں یوں اب جے یو آئی کے کارکنان فخر کے ساتھ کہتے پھررہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کاخاتمہ ہمارے دستخطوں کے ذریعہ ممکن ہوسکا‘ سوال یہ پیداہوتاہے کہ ن لیگ نے پنجاب میں اپنے کارکنوں کو اس فخر کے احسا س و اظہا ر سے کیوں محروم رکھا؟اس کااصل جواب تو خود ن لیگ کی قیادت ہی دے سکتی ہے لیکن یہ ظاہرہے کہ پنجاب میں اپوزیشن کی کوشش تھی کہ پنجاب اسمبلی ہر صورت بچائی جائے تاکہ وہاں پھر اپنی حکومت قائم کی جاسکے کیونکہ پنجاب کا خزانہ بھرا ہواتھا جہاں تک ہمارے صوبہ کاتعلق ہے تو یہاں کاخزانہ تو کب کاخالی ہوچکا،مرکز صوبہ کو اس کے حصہ کے پیسے دینے سے انکار ی ہے ان حالات میں اپوزیشن کو کیا پڑی تھی کہ
یہاں پر اسمبلی بچانے کی کوشش کرتی ویسے بھی یہاں اپوزیشن کی حکومت سازی کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر تھے اس لئے بیچاری خیبرپختونخوا اسمبلی پر کسی نے بھی ترس نہیں کھایا اور اچانک ہی ٹٹ گئی تڑک کرکے۔ نہ تو اپوزیشن نے اسے کوئی اہمیت دی نہ ہی پنجاب کے برعکس قائد ایوان نے ہی بچانے کے لئے کوئی ہاتھ پاؤ ں مارے،البتہ بتایاجاتاہے کہ بعض وزراء اسمبلی کی تحلیل کوچندہفتوں تک ٹالنے کے خواہشمند تھے کیونکہ ان کے بہت سے منصوبے ابھی تک پائپ لائن میں تھے ویسے بھی اگردیکھاجائے توہمارے ہا ں اکثر حکومتیں آخری سال کے آخری مہینوں میں بہت سارے منصوبے لاتی ہے تاکہ اگلے الیکشن تک ووٹروں کو یہ سب یاد رہ سکے چنانچہ ہم نے دیکھا کہ جب عمران خان نے چند ہفتے قبل اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ کیا اور پھر اس پر قائم بھی رہے تو وزیر اعلیٰ محمود خان حرکت میں آئے اور ہنگامی بنیادوں پر اضلاع کے دور ے کرکے منصوبوں کاسنگ بنیاد رکھنے اور افتتاحوں میں مصروف ہوگئے یہ وہ دن تھے کہ جب صوبائی حکومت مسلسل یہ کہتی رہی کہ وفاق نے صوبہ کی رقم روکی ہوئی ہے اورخزانہ خالی ہے مگر پھر اچانک ہی وزیر اعلیٰ کی طرف سے اربوں روپے کے منصوبوں کاسنگ بنیاد رکھاجاتارہا جس پر حیرت کااظہار اس لئے کیاجاتارہاآخر کاران منصوبوں کے لئے اتنی بڑ ی رقوم کہاں سے آئیں گی یہ بھی بتایاجاتاہے کہ بعض وزراء کی طرف سے آخری دنوں میں بھرتیوں کے لئے جو منصوبہ بندی کی ہوئی تھی وہ بھی دھری کی دھری رہ گئی بہرحال عمران خان کے سامنے کسی کی بھی نہیں چلی‘ عمران خان کے متعلق تو سب کو پتہ ہے کہ جب کوئی فیصلہ کرلیتے ہیں چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو‘اس پرڈٹ جاتے ہیں ویسے بھی اس وقت یہ خبر یں بھی زیر گردش ہیں کہ پی ٹی آئی کے
امیدواروں میں کافی رد و بدل کاامکان ہے‘کئی سابق اراکین ٹکٹ سے محروم ر ہ سکتے ہیں جبکہ بعض کے حلقے تبدیل ہونے کاامکان ہے‘یہی وجہ ہے کہ ابھی سے امیدواروں نے کوششیں شروع کردی ہیں‘ان حالات میں پارٹی کے کسی بھی فیصلے پرتنقید یا اس کی مخالفت کرکے بھلا کو ن اپنے سیاسی مستقبل پر فل سٹاپ لگا نے کی غلطی کرے گا اسی بیچاری اسمبلی کی بعض قراردادیں آج بھی عملدر آمدکی منتظر چلی آرہی ہیں خاص طورپرپی ٹی آئی جب مرکز میں بر سر اقتدارتھی تو اس وقت مرکز کے ساتھ بعض ایشوز پر صوبائی اسمبلی نے قراردادوں کے ذریعہ مرکز سے جو مطالبا ت کئے تھے وہ خود پی ٹی آئی کی پونے چارسالہ وفاقی حکومت کے دوران پورے نہیں ہوسکے جن میں سب سے اہم مطالبہ پن بجلی منافع کے بقایاجات اور اے جی این قاضی فارمولے کے تحت پن بجلی منافع کی صوبہ کوفراہمی کاتھا اورتو اور خودراقم کے ایک سوال کے جواب میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے طو رخم بارڈر پرتین ساڑھے تین برس قبل اس امر کااعلان کیاتھاکہ خیبرپختونخوا کو اے جی این قاضی فارمولے کے تحت اس کاپورا پوراحق ملے گا مگر افسو س کہ ان کی حکومت ختم ہوگئی مگر قاضی فارمولے کو طاقتور مافیا کی وجہ سے زیر عمل نہ لایاجاسکااورجب وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے توانائی حمایت اللہ خا ن کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیاگیا تو یہ امر یقینی ہوگیاکہ اب بجلی اورگیس کے معاملات ماضی کی طرح لاینحل ہی رہیں گے اس حوالہ سے تفصیلات جلد ایک الگ کالم میں سامنے لانے کاارادہ ہے حمایت اللہ خان نے جس طریقے سے بجلی اورگیس کے ایشوز کے حوالہ سے کیس لڑاتھا اور جس طریقے سے انہوں نے اسلام آباد اورپنجاب کی مخصوص ذہنیت والی بیوروکریسی کو دیوا ر کے ساتھ لگانے میں کامیابی حاصل کی تھی اس کے تناظر میں ان کو عین موقع پر ذمہ داریوں سے ہٹانا ایک احمقانہ قدم ثابت ہوا‘بہرحال بیچاری خیبر پختونخوا اسمبلی اس طرح کے بہت سے ایشوز لاینحل چھوڑ کر رخصت ہوچکی ہے اب دیکھنایہ ہے کہ نئے انتخابات کے بعد جو نئی اسمبلی وجودمیں آتی ہے وہ صوبہ کے حقوق کے ادھورے ایجنڈے کو کس طرح تکمیل کی طرف لے جانے میں کامیابی حاصل کرتی ہے۔