آدھی روٹی

معاشی صورتحال جلد بہتر نہ ہوئی تو بہتر مستقبل کے لئے بیرون ملک منتقل ہونے والے ذہین پاکستانیوں کی نقل مکانی جاری رہے گی۔ توجہ طلب ہے کہ ایک وقت وہ تھا جب پاکستان میں لوگ کام کاج (روزگار) نہ ملنے کی وجہ سے بیرون ملک جاتے تھے اور ایسا کرنے والوں میں اکثریت اُن لوگوں کی ہوتی تھی جو تعلیم یافتہ یا ہنرمند نہیں ہوتے تھے لیکن آج صورتحال قطعی مختلف ہے اور انتہائی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی نظریں بیرون ملک پر لگی ہوئی ہیں اور یوں پاکستان اپنے ”ذہین اثاثے“ سے محروم ہو رہا ہے۔ آخر یہ صورتحال کیوں تبدیل ہو گئی ہے کہ پڑھائی لکھائی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کے لئے بھی روزگار کے مواقع نہیں رہے اُور صورتحال یکسر کیسے تبدیل ہو گئی کہ جب باصلاحیت لوگ پاکستان میں رہتے تھے اُور اُنہیں اپنے ملک میں حسب خواہش آگے بڑھنے کے مواقع ملا کرتے تھے؟ یقینا وہ وقت قارئین کو یاد ہوگا جب بیرون ملک بہتر معاش کے مواقعوں کی تلاش کو ”آسان زندگی“ اختیار کرنا اُور ”بزدلی کی علامت“ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا تھا گھر کی آدھی روٹی بیرون ملک کی پوری روٹی سے بہتر ہوتی ہے لیکن آج گھر کی وہ ”آدھی روٹی“ بھی میسر نہیں رہی اور منظرنامہ مکمل طور پر تبدیل دکھائی دے رہا ہے جو پریشان کن ہے۔ اپنے بچوں کو بیرون ملک وداع کرنے والے والدین جانتے ہیں کہ اُن کے جنازے کو اُٹھانے والے کندھوں میں کمی ہو رہی ہے لیکن اِس کے بغیر چارہ بھی تو نہیں رہا۔ تعلیم یافتہ باصلاحیت افراد‘ ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ سائنس دان‘ تحقیق کے شوقین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کام کاج کے بہتر مواقع کی تلاش میں پاکستان چھوڑنے کی خواہش رکھتے ہیں اور اِس وجہ سے دھوکہ دہی کا بھی شکار ہو رہے ہیں۔سال 2022ء کے دوران مجموعی طور پر ”7 لاکھ 65 ہزار“ سے زائد تعلیم یافتہ نوجوانوں نے بہتر زندگی یا بہتر مواقعوں کی تلاش میں پاکستان کو الوداع کہا۔ یہ تعداد سال دوہزاراکیس اور دوہزاربائیس میں ملک چھوڑنے والے نوجوانوں کی تعداد سے قریب تین گنا زیادہ ہے۔ اب تو یہ جملہ زیادہ سننے کو ملتا ہے کہ ”پاکستان میں کیا رکھا ہے!“ حالانکہ پاکستان میں وہ سب کچھ رکھا ہوا ہے جو کسی بھی ملک کو خوش قسمت قرار دینے کے لئے کافی ہے لیکن ملکی وسائل کو خاطرخواہ ترقی نہیں دی گئی۔ معاش اور نوجوانوں کے لئے بہتر مواقع فراہم کرنے کے لئے مشکل فیصلوں کے مقابلے آسان فیصلے اختیار کئے گئے جس کی وجہ سے نوجوانوں بالخصوص تعلیم یافتہ نوجوانوں میں مایوسی پائی جاتی ہے اور وہ اپنے مستقبل کے بارے میں غیریقینی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان سے ذہانت کے اخراج کا سب سے زیادہ منفی اثر (خسارہ) تدریس کے شعبے میں دکھائی دیتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک جانے والوں کی اکثریت وطن واپس نہیں آ رہی! معاشی مندی‘ روزگار کے کم مواقع اور امن و امان کی دگرگوں صورتحال اور نوجوانوں کے لئے پریشانی کا باعث ہے جو ’مہذب بقا‘ چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِس بات پر تعجب کا اظہار نہیں کیا جا رہا کہ ذہین نوجوانوں کی بیرون ملک منتقلی کے بعد جو کچھ پیچھے رہ گیا ہے وہ سوشل میڈیا سٹارز (ٹک ٹاک ویڈیوز) ہیں ملک میں ذہانت کا اخراج اور سنجیدگی کا فقدان لمحہئ فکریہ ہے۔ نوجوانوں کے لئے ہر دن مشکل ہو رہا ہے کہ وہ اُمید اور ناامیدی کے درمیان توازن برقرار رکھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نوجوانوں کے لئے اب صرف دو ہی راستے باقی بچے ہیں ایک تو اُنہیں اچھی زندگی گزارنے کے مواقعوں کی تلاش ہے اور دوسرا اُنہیں اہلیت کی بنیاد پر ایسا کوئی بھی موقع ملنے کی امید نہیں ہے! حال ہی میں اسلام آباد کے ’ڈپلومیٹک انکلیو‘ (سفارتخانوں) کو جانے والی بس (شٹل سروس) میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ بس کی رفتار کم تھی اور باہر کے نظارے کسی فلم کی طرح بدل رہے تھے۔ سخت سردی‘ دھند اور ہلکی ہلکی بوندا باندی کا مقابلہ کرتے ہوئے غیر ملکی سفارت خانوں کے باہر قطاروں میں کھڑے نوجوان بہتر زندگی کی تلاش میں اپنے ملک اور پیاروں کو خیرباد کرنے کا عزم کر چکے تھے۔ کیا یہ آسان زندگی سے مشکل زندگی کی طرف جا رہے ہیں یا مشکل زندگی کے مقابلے آسان زندگی کا انتخاب کر بیٹھے ہیں؟ آج کی حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی ملک کا ویزا ملنے والے ”خوش قسمت“ تصور کیا جاتا ہے۔ بہن بھائی اور دوست احباب مبارک باد دیتے ہیں۔ اپنے پیارے الوداع ہو رہے ہیں کیا ہمارے فیصلہ ساز جن کے اپنی آل اولادیں بیرون ملک ہیں‘ ایک لمحے کے لئے بھی نوجوانوں سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ خوش قسمتی کیا ہے اپنا ملک اور آبائی علاقہ چھوڑ دینا یا اپنے ملک اور آبائی علاقے کی تعمیروترقی اور بہبود کے لئے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنا؟ ایسے نوجوان بھی ہیں جو غیرمعیاری تعلیمی نظام کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کو گنوا دیتے ہیں۔ اُن سے کئے گئے بہتر زندگی کے وعدے ایفا نہیں کئے جاتے! پاکستان کی داخلی سکیورٹی کو لاحق خطرات میں نوجوانوں کے لئے خاطرخواہ روزگار کے مواقعوں کا نہ ہونا بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے اپنے مستقبل سے مایوس نوجوان ملک و معاشرے سے انتقام پر اُتر آتے ہیں اور دہشت گردوں کی سہولت کاری کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق افغانستان میں پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیموں کے پاس کم سے کم سات ہزار نوجوان (افرادی قوت) ہے۔ نوجوانوں سے متعلق قومی ترجیحات پر نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے نوجوان‘ جو کہ ہمارا اثاثہ ہیں‘ بیرون ملک جانے کے مواقعوں کو خوش قسمتی نہ سمجھیں اور نہ ہی پاکستان اور اِس کے عوام سے انتقام لینے والوں کے ہتھے چڑھیں۔ خلاصہئ کلام یہ ہے کہ پاکستان سے ”برین ڈرین“ کی طرح ”برین واشنگ“ روکنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔