سیاسی محاذپرگہما گہمی بڑھتی جاتی ہے، صاحبان اقتدار کے لئے تو یہ دن مشکل ہیں کہ ایک طرف ان سے معیشت نہیں سنبھل رہی تو دوسری طرف امیدواران ِاقتدار کے نت نئے محاذ وں پر پے بہ پے وار بھی ان کے تناؤ میں اضافہ کر رہے ہیں، پھر بھی کوئی ایسی کشش تو ضرور اس لیلائے اقتدار میں ہے کہ عشاق گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہیں ہو پاتے۔ خیر یہ تو وہ رموز مملکت ہیں جو محض خسروان ہی جانتے ہیں، جب کہ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے ہم سب کی حیثیت تماشائیوں کی سی ہے اور ہم اس بات پر خوش ہیں کہ صاحبان اقتدار اور امیدواران ِ اقتدار کو ہماری فکر کھائے جا رہی ہے وہ گلے پھاڑ پھاڑ کر ہماری بھلائی کے لئے ’تقریرتے‘رہتے ہیں،ایک دوسرے کے خلاف ایسے ایسے انکشافات کرتے رہتے ہیں کہ یار لوگ ٹی وی ڈرامے بھول بیٹھے ہیں،ان دنوں ملکی معاملات قرض کے حصول کے لئے کی جانے والی کوششوں اور شرائط کے گرد گھوم رہے ہیں، ادھر سیلاب سے متاثر ہونے والے گاؤں کے گاؤں کھلے آسمان کے نیچے موسموں کی شدت سے اس امید پر نبرد آزما ہیں کہ کبھی تو سیاسی زعماء اپنے اپنے روز وشب کے اعلانات اور بیانات سے فراغت پا کر ہماری بھی خبر لیں گے، ان کے لئے اچھی خبر یہی ہے کہ بھلے سے کوئی ان کی خبر نہ لے کم از کم ان کی حالت زار کے نقشے کھینچ کھینچ کر زعماء اپنے ملک کے لئے کچھ خیرات اور کچھ اعلانات تو ”کما“ کر لے آئے ہیں، دو ڈھائی دن اس ”کامیابی“ کے سہارے کٹ جائیں گے۔ لیکن بہر حال جلد ہی یہ بساط بھی لپیٹ دی جائے گی اور نئے طالع آاما اقتدار کے اُفق پر طلوع ہو جائیں گے اور آنیوالے چند برس ہمیں یہ سمجھانے میں خود کو ہلکان کرتے رہیں گے کہ ان سے پہلے کے بے حس حکمرانوں نے ملکی معیشت کا کس طور جنازہ نکالا ہے اور اب ہمارے پاس سوائے اس کے کوئی اور چارہ نہیں کہ قرضے کے لئے کچکول لے کر نکل جائیں اور مجبوری کے عالم میں کی گئی مہنگائی کے ساتھ جینا سیکھ جائیں، یہ سب شاخسانہ پچھلے حکمرانوں کی عیاشیوں اور غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے۔ اور یوں چند برس اونچے ایوانوں کی راہداریوں میں گزار کر نئے طالع آزماؤں کو موقع دیں گے کہ وہ آ کر ان کے
حکومتی دورانیہ کو تنقید کا نشانہ بنائیں، اور یہ کھیل جاری رہے گا سیلاب زدہ گاؤں بدستور موسموں کے رحم و کرم پر رہیں گے، چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھوک پیاس اور بیماریوں کے ساتھ لڑتے لڑتے کچھ زندگی ہار جائیں گے اور کچھ بڑے ہو جائیں گے اور کسی نئی آسمانی آفت کا انتظار کریں گے، تا کہ مراعات یافتہ طبقہ ان کے نام پر اپنی عیاشیوں کے لئے کچھ اور کہیں سے بٹور لائیں، کوئی سوچ سکتا ہیں کہ سیاسی محاذ پر ایک دوسرے کے خلاف مصروف زعما ء نے اپنے ان بیانات میں ایک بار بھی ان بچوں،خواتین اور بوڑھوں کا ذکر کیا ہے جو سیلاب کے اتنے مہینوں بعد بھی اپنے اپنے مکانوں کے ملبے پر بیٹھے آسمان کو تک رہے ہیں اب بھی کوئی کوئی ٹی وی چینل کبھی کبھی جا کر ان کی حالت زار کی فوٹیج بنا کر اپنی سکرین پر سجا دیتا ہے، جو بریکنگ نیوز کے ہنگامے میں کہیں کھو جاتی ہے، اور سیلاب زدہ لوگ اس امید پر ان چینلز کے کیمروں کے آگے بھیگی آنکھوں سے اپنا سینہ چیر کر رکھ دیتے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ سبکساران ساحل کو بیچ منجھدار میں گھرے ہوئے لوگوں سے کم کم ہی دلچسپی ہوتی ہے، کبھی اکبر الہ آبادی نے کہا تھا
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ
یہ آج بھی اتنا ہی سچ ہے اور اب تو خیر حکام کے ساتھ کھائے ہوئے ڈنر اور لنچ کے بعد ذرا سی ہوا کے رخ بدلنے پر یار لوگ ساری باتوں اور ملاقاتوں سے انکاری ہو جاتے ہیں، اور سچ یہ بھی ہے کہ جینا اور سکھ سے جینا اب بہت اٹکل مانگتا ہے اور یہ ہنر یقینا ان چند لوگوں کو آتا ہے جن کے پاس خرچ کرنے کو بہت کچھ ہے، بلکہ جو خرچ کرنے کے لئے کبھی پریشان نہیں ہوتے،
البتہ ہم تم اس نظام کے تنور کا وہ ایندھن ہیں جن کے نصیب میں جلنا اور کڑھنا ہی لکھا ہوا ہے، اب تو اس مہنگائی کی وجہ سے ہم تم بازار تک جاتے تو ضرور ہیں مگر اکبر الہ آبادی کی طرح یہ کہتے ہوئے لوٹ آتے ہیں
دنیا میں ہوں دنیا کا طلبگار نہیں ہوں
بازار سے گزر ا ہوں خریدار نہیں ہوں
چلئے یہ بھی غنیمت ہے کہ بازار اور رونق بازار سے تو ہمیں لا تعلق کر دیا گیا ہے مگر سیاسی محاذ پر خوب رونقیں ہیں، ایک سے ایک نیا ہنگامہ دیکھنے سننے کو ملتا ہے اور مزے کی بات یہ بھی ہے یہ ہنگامے شام سمے چھوٹی سکرین پر بپا ہوتے ہیں، نت نئے پروگرام اپنے اپنے مفادات کے تڑکہ کے ساتھ پیش کرتے ہوئے یار لوگ کچھ ایسا نقشہ پیش کر رہے ہوتے ہیں جس سے یہی لگتا ہے کہ اگلے چند گھنٹوں میں کوئی بہت بڑا طوفان ایک بہت بڑا انقلاب لانے والا ہے، بلکہ بعض تجزیہ نگار تو باقاعدہ منجم اور جوتشی بن کر پیش گوئیاں بھی کر دیتے ہیں،یہ دونوں اطراف کے گروپس میں مو جود ہیں گویا ایوان ِ اقتدار کے باسیوں کے چاہنے والوں میں بھی ایسے نجومیوں کی کمی نہیں اور امیدواران اقتدار کے طرفداروں میں بھی ایسے ہی با کمال لوگوں کی کمی نہیں،یہ کھیل نیا نہیں ہے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا کہ جب اقتدار میں آئیں گے تو اپنی باری پچھلی حکومت کو کوسنے میں گزار دیں گے اور جب اقتدار سے محروم ہو جائیں گے تو نئی حکومت کے لئے فضا ایسی مکدر بنا دیں گے کہ وہ بھی سو کام چھوڑ کر ان کے لگائے گئے الزامات کے جوابات دینے بیٹھ جائے گی۔ اور یہی کچھ ان دنوں بھی ہو رہا ہے کہ ’سیاسی محاذپرگہما گہمی بڑھتی جاتی ہے، صاحبان اقتدار کے لئے تو یہ دن مشکل ہیں کہ ایک طرف ان سے معیشت نہیں سنبھل رہی تو دوسری طرف امیدواران ِاقتدار کے نت نئے محاذ وں پر پے بہ پے وار بھی ان کے تناؤ میں اضافہ کر رہے ہیں، پھر بھی کوئی ایسی کشش تو ضرور اس لیلائے اقتدار میں ہے کہ عشاق گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہیں ہو پاتے‘ اور خواجہ میر درد کی زبان میں اپنے کانوں میں سر گوشی کرتے ریتے ہیں
اذیت، مصیبت، ملامت، بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا