خیبر پختونخوا کی کابینہ اور صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نگران وزیر اعلی کی تقرری کا عمل بھی نہایت خوش اسلوبی سے انجام پا گیا۔ قائمقام وزیر اعلی محمود خان اور اپوزیشن لیڈر اکرم درانی کے درمیان ملاقات میں سابق چیف سیکرٹری اعظم خان کو نگران وزیر اعلیٰ بنانے پر اتفاق ہو گیا۔یہ امر انتہائی خوش آئند ہے کہ سیاسی اور نظریاتی اختلافات کو صوبے کے مفادات کی راہ میں حائل ہونے نہیں دیا جاتا۔یہی اس صوبے کے لوگوں اور یہاں کے سیاسی قائدین کی سیاسی پختگی کا ثبوت ہے۔نگران وزیراعلی اعظم خان وفاق اور صوبے میں مختلف اعلی عہدوں پر فائز رہے انہوں نے اپنی دیانت داری پر آنچ نہیں آنے دی یہی وجہ ہے کہ جب عوامی نیشنل پارٹی نے ان کا نام نگران وزیر اعلی کے طور پر پیش کیا تو تحریک انصاف، جے یو آئی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، قومی وطن پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی سمیت کسی نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا۔جو ان کی دیانت داری اور ایمانداری پر اتفاق رائے کا مظہر ہے اور توقع ہے کہ اعظم خان صوبے کی نگران حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی غیر جانبداری ضرور ثابت کریں گے۔نگران وزیر اعلی کے خاندانی پس منظر پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے تمام سیاسی گھرانوں سے خونی رشتے اوراعتماد کے تعلقات ہیں۔ اعظم خان نے پشاور یونیورسٹی سے گریجویشن اور ایل ایل بی کرنے کے بعد لندن کے لنکنز ان کالج سے بیرسٹر کی ڈگری حاصل کی۔جس کے بعد انہوں نے سول سروس کا امتحان پاس کرکے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ میں شمولیت اختیارکی۔چارسدہ سے تعلق رکھنے والے سابق چیف سیکرٹری اعظم خان خیبرپختونخوا کی کم و بیش تمام سرکردہ سیاسی گھرانوں سے قریبی رشتہ داری ہے۔اعظم خان کا ایک بھائی محمد عباس خان انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا رہ چکے ہیں۔ عباس خان مفتی محمد عباس کی نگران کابینہ میں وزیر رہے ہیں۔ اعظم خان کے ایک اور بھائی میجر ریٹائرڈ مختیار احمد خان ایک عرصے تک عوامی نیشنل پارٹی سے منسلک رہے اور اے این پی کے ٹکٹ پر سینیٹر بھی بنے تھے۔نگران حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری نئے انتخابات کا آزادانہ اور منصفانہ انعقاد یقینی بنانا اور منتخب حکومت کے قیام تک صوبے کا نظم و نسق چلانا ہے۔توقع کی جا سکتی ہے کہ اعظم خان مختلف اعلی انتظامی عہدوں پر کام کرنے کے اپنے وسیع تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے صوبے کا عبوری انتظام و انصرام بہتر اور موثر طریقے سے چلائیں گے اور آنے والوں کے لئے ایک مثال قائم کریں گے۔