حالیہ سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد و بحالی کے لئے عالمی برادری کی جانب سے 9 ارب ڈالر دینے کا وعدہ پاکستان کی درخواست (اپیل) سے ایک ارب ڈالر زیادہ ہے لیکن اِن وعدوں کو پورا کرنے کے لئے خاطرخواہ جوش و خروش دکھائی نہیں دے رہا دوسری طرف سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثرہ معیشت و معاشرت بحال کرنے کے لئے اگلے تین برس کے دوران سولہ ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ حکومت نے اس رقم کا آدھا حصہ خود ادا کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے اور چاہتی ہے کہ عالمی برادری باقی رقم (آٹھ ارب ڈالر) فراہم کرے۔ ترقی یافتہ ممالک درحقیقت پاکستان جیسے غریب ملک کو آب و ہوا کے اثرات سے نمٹنے میں مدد کرنے کے پابند ہیں۔ 1992ء میں‘ امیر ممالک نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور غریب ممالک میں ماحول دوست ٹیکنالوجی متعارف کرانے کے لئے مالی مدد فراہم کرنے پر اتفاق کیا تھا لیکن اِس سلسلے میں عملی طور پر یعنی جو حقیقی امداد فراہم کی گئی وہ ناکافی ہے۔ ’کاربن بریف‘ نامی ویب سائٹ کے مطابق زیادہ تر امیر ممالک کو موسمیاتی فنانسنگ کے طے شدہ ہدف کو پورا کرنے کے لئے بہت زیادہ رقم ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف امریکہ ہی مجموعی ماحولیاتی تباہی کے نصف سے زیادہ کا ذمہ دار ہے۔ اس لحاظ سے امریکہ کو سال 2020ء سے 100 ارب ڈالر کی ”ماحولیاتی فنانسنگ“ کی مد میں 32 ارب ڈالر سالانہ ادا کرنے ہیں۔ برطانیہ‘ کینیڈا اور آسٹریلیا بھی فضائی آلودگی پھیلانے کے ذمہ دار ممالک کی فہرست میں شامل ہیں لیکن یہ ممالک بھی حسب وعدہ (متفقہ اہداف) کے لئے بہت کم مالی تعاون کر رہے ہیں۔ اِن کے برعکس جرمنی‘ فرانس اور جاپان موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کی مالی اعانت کے لئے زیادہ فنڈنگ کا وعدہ کئے ہوئے ہیں لیکن زیادہ تر فنانسنگ ترقیاتی قرض دینے والی ایجنسیوں کے ذریعے دیئے جا رہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی سے متاثر پاکستان کو مزید قرضے لینے کی بجائے قرضوں کی معافی اور امداد کی شکل میں ”ماحولیاتی فنانسنگ“ کا مطالبہ کرنا چاہئے تھا جو کہ نہیں کیا گیا اُور یوں ماحول کی تباہی کے لئے ذمہ دار ممالک سے براہ راست قیمت وصول کرنے کا ایک موقع ضائع کر دیا گیا۔ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی وجہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی سخت شرائط نہیں بلکہ ملک میں غیریقینی کی صورتحال ہے۔ مہنگائی کی شرح قریب چالیس فیصد میں آئی ایم ایف کی شرائط کا کردار بیس فیصد سے کم ہے۔ یہ شرائط معاشی اصلاحات کے لئے عائد کی گئیں تاکہ پاکستان قرض اور اِس پر سود کی ادائیگی کے قابل ہو سکے اور درحقیقت آئی ایم ایف جو معاشی اصلاحات چاہتا ہے وہ پاکستان کے مفاد میں بھی ہیں اور اِنہیں 2 طریقوں سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ ایک حکومتی اخراجات میں کمی لا کر دوسرا سرکاری اداروں کا خسارہ کم کرنے سے اور تیسرا پاکستان کے وسائل پر انحصار‘ وسائل کی ترقی اور درآمدات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔پاکستان کے فیصلہ سازوں کی جانب سے آئی ایم ایف کی بیل آؤٹ شرائط پر اپنے سخت مؤقف سے پیچھے ہٹنے اور رکے ہوئے قرض پروگرام کی جلد بحالی ’دانشمندانہ انتخاب‘ ہے۔ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے آخر کار قرض دہندہ کو ان تمام مسائل کے حل کی یقین دہانی کے ساتھ مذاکرات کی دعوت دی ہے جو تقریبا چار ماہ سے فنڈ کے نویں جائزے کو حتمی شکل دینے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور قرض کی اگلی قسط کی ادائیگی میں اِسی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا کیا قومی فیصلہ ساز اُس حد تک جانے کے لئے تیار ہیں جو پاکستان کے کمزور ہوتے بیرونی شعبے کے استحکام میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے ’آئی ایم ایف‘ شرائط کی ’کڑوی گولی کو میٹھا کرنے‘ اور مہنگائی کے شکار عوام پر کم سے کم معاشی بوجھ ڈالنے کی خواہش قابل فہم اور معنی خیز ہے۔