دستیاب ملازمتی وسائل‘ ذرائع اور مواقعوں کی کمی کے باعث ’افرادی قوت (لیبر فورس)‘ کا وہ حصہ جسے کام کاج نہیں ملتا‘ اُنہیں ’بے روزگار‘ کہا جاتا ہے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ہر سال بیروزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو عمومی مشاہدے اور حکومتی اعدادوشمار سے بھی عیاں ہے۔ سال دوہزاراکیس کے دوران پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 4.35 فیصد تھی جو سال کے مقابلے میں 0.05فیصد رہی۔ اِسی طرح سال دوہزاربیس میں بے روزگاری کی شرح 4.30فیصد رہی جو دوہزار اُنیس کے مقابلے میں 0.76فیصد زیادہ تھی اور سال دوہزاربائیس کے دوران تاریخ کی بلند ترین بیروزگاری کی شرح ریکارڈ 6.20 فیصد ریکارڈ کی گئی یعنی ہر ایک سو افراد میں سے چھ سے زائد افراد کو روزگار نہیں مل رہا جبکہ اعدادوشمار سے الگ برسرزمین حقائق زیادہ تلخ ہیں۔
بیروزگاری صرف پاکستان ہی کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ بھی ہے۔ گزشتہ دو برس سے دنیا میں بے روزگاری بڑھی ہے کیونکہ عالمی معیشت بھی سست روی کا شکار ہے۔ توقع ہے کہ رواں برس (دوہزارتیئس) میں روزگار کے متلاشی کم معیار اور کم تنخواہ والی ملازمتوں اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے۔ افرادی قوت کو اُس کی تعلیم و قابلیت کے مطابق ملازمت نہ ملنا اور کم تنخواہوں پر ملازمتیں ملنے سے ’افراط زر (مہنگائی)‘ کے منفی اثرات میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ محنت کشوں کے حقوق کے حقوق بھی پائمال ہوتے ہیں۔ حقیقی ملازمت کا مطلب کام کاج کے معیاری حالات اور اوقات کار بھی ہوتے ہیں جن کے نتیجے میں میں ملنے والے معاوضے کو اصطلاحاً ’حقیقی اُجرت‘ کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں بیروزگاری سے متعلق تازہ ترین اعدادوشمار اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ”انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او)“ کی تازہ ترین رپورٹ میں ذکر ہوئے ہیں جن کا عنوان ”ورلڈ ایمپلائمنٹ اینڈ سوشل آؤٹ لک“ رکھا گیا ہے۔ سات ابواب میں تقسیم 128صفحات پر مشتمل مذکورہ رپورٹ ’آئی ایل او کی ویب سائٹ (iLO.org) سے مفت حاصل (ڈاؤن لوڈ) کی جا سکتی ہے۔ بڑھتی ہوئی بیروزگاری پاکستان جیسے ترقی پذیر اور یورپ و امریکہ جیسی ترقی یافتہ معیشتوں کی افرادی قوت کے یکساں ”اچھی خبر نہیں ہے“ کیونکہ ایک طرف اگر بیروزگاری بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف آمدنی کے مقابلے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں زندگی بسر کرنے کی لاگت بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ معاشی سست روی اور بیروزگاری کے بحران کا تعلق 2 محرکات سے ہے۔ ایک کورونا وبا اور اِس کے بعد جاری اثرات ہیں جبکہ دوسرا محرک روس و یوکرین جنگ ہے۔ سال دوہزاربائیس کے اوائل میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے پیٹرولیم مصنوعات اور اجناس کی عالمی منڈیاں عدم استحکام سے دوچار ہیں اور کم و بیش سبھی ممالک میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد بڑھی ہے اِس صورتحال میں اگر مجبوراً ’کم اُجرت‘ اور ’غیرمعیاری‘ ملازمتیں اختیار کی جائیں گی اور حسب قابلیت و اہلیت بہتر روزگار نہیں ملے گا تو روزگار ملنے کے باوجود مسئلہ (بحران) حل نہیں ہوگا۔
روزگار کی بھی تہذیب ہوتی ہے۔ روزگار بھی منافع بخش اور خسارے کا باعث ہو سکتا ہے اور اِن دونوں ضمنی پہلو ’بے روزگاری‘ کی اصطلاح کو زیادہ وسیع بنا دیتے ہیں۔ کام کاج کے خراب حالات کی وجہ سے افرادی قوت اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھی استعمال نہیں کر سکتی جو کسی ملک کی قومی ترقی اور برآمدات کے لئے پیداواری صلاحیت میں اضافے کا باعث ہوتی ہے۔ ’آئی ایل او‘ نے عالمی سطح پر ممالک کے فیصلہ سازوں کو متنبہ کیا ہے کہ یوکرین میں روس کی جنگ اور دنیا بھر میں دیگر جغرافیائی سیاسی تنازعات یا تناؤ جیسے متعدد بحرانوں کو حل کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ دسمبر 2019ء میں منظرعام پر آنے والی کورونا وبا‘ کے اثرات سے نکلنے کی کوشش (مکمل صحت یابی) کی کوشش میں ممالک اگر ایک دوسرے سے تعاون نہیں کر رہے تو یہ صورتحال بھی دنیا کو درپیش کئی ایک بحرانوں کا سبب ہے۔ پاکستان کے ہمسایہ ’عوامی جمہوریہ چین‘ سے آمدہ اطلاعات کے مطابق کورونا وبا پھر سے سر اُٹھا رہی ہے اور اگر اِس کی نئی قسم کا پھیلاؤ جاری رہا تو ”عالمی سپلائی چین“ میں رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں جو پاکستان جیسی سبھی بحالی کی جدوجہد کرتی معیشتوں (ترقی پذیر ممالک) میں افراط زر اور کم شرح نمو کا باعث بنیں گی اور جمود کی سطح مزید کم ہونا کسی بھی طرح خوش آئند نہیں ہوگا۔ دوسری طرف دنیا کو سب سے بڑھ کر خطرہ ”موسمیاتی تبدیلیوں“ سے ہے جس کے نتیجے میں انواع و اقسام کے انسانی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اِن چیلنجوں میں سرفہرست غذائی عدم تحفظ کی صورتحال ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے زرعی شعبہ متاثر ہے۔ اِس پورے منظرنامے میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے چند نکات بطور مدد پیش خدمت ہیں۔ پہلا نکتہ: پاکستان میں معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں جن کی رفتار بڑھانے‘ قومی ترقی کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے اور معاشی بحالی کے لئے سیاسی عدم استحکام ضروری ہے۔ دوسرا نکتہ: روزگار میں اضافے کے مواقع توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ اگر پاکستان مستقبل قریب میں ایک اور ”سپر فلڈ“کے اثرات سے مکمل طور پر نکلنا چاہتا ہے اور اُسے اُمید ہے کہ وہ آئندہ مون سون سیزن کا اپنے وسائل سے تن تنہا مقابلہ کر لے گا تو اِسے دوست و امدادی ممالک کی جانب سے کئے گئے وعدوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے جس کے لئے مناسب طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ تیسرا نکتہ: قومی قیادت حقیقت آشنا ہے کہ معاشی بحالی کی رفتار تیز کرنے سے بے روزگاری کا دباؤ بھی کم ہوگا لیکن اِس سلسلے میں ضرورت معاشی بحالی کی قومی حکمت عملی کی ہے جس میں قرض اور امداد پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے منجملہ وسائل کو ترقی دی جانی چاہئے۔ بہتر مستقبل کے لئے بہتر منصوبہ بندی کام آ سکتی ہے‘ بہتر توقعات نہیں!